Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohrab Naseer
  4. Liberated

Liberated

لبریٹڈ

کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ بندہ لبرل بن جائے۔ یا چلو، لبرل نہ سہی، کم از کم لبرل فیمینسٹ ہی بن جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا باہر سے دکھائی دیتا ہے۔ لبرل بننے کے لیے سب سے پہلا امتحان یہ ہے کہ آپ کو ایک مستقل جھوٹ کے ساتھ جینا پڑتا ہے، کہ آپ کو عورت میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ عورت چاہے کسی بھی رنگ و نسل کی ہو، کیسا ہی لباس پہن لے، جس انداز میں چاہے بات کرے، جیسا مرضی آپ کے ساتھ تعلق رکھے، آپ کو اپنے ضمیر، اپنے جاننے والوں، عمومی معاشرے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر سب کے سامنے تسلسل سے اس بات کا یقین دلانا پڑتا ہے کہ مجھے تو کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا، پردہ دل کا ہوتا ہے، عورت کا بھی جسم ہی تو ہے، اس میں مختلف کیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اب بطور (دیسی) مرد، یہ جھوٹ بولنا آسان نہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ اتنا مشکل جھوٹ ہے کہ بعض اوقات ساری مذہبی عبادتوں سے بھی زیادہ ضبط درکار ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ یہ جھوٹ کامیابی سے بول لیں تو دنیا آپ کو روشن خیال سمجھتی ہے۔ ترقی پسند، حساس، feminist ally اور پتہ نہیں کیا کیا۔ عورت خدا کی نعمت ہے، رحمت ہے، نزاکت اور شفقت کا مظہر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان کشش رکھی گئی ہے اور بے پناہ کشش ہے اور یہ فطرت کا نظام ہے۔ جدید لبرل ڈسکورس مرد کو مسلسل یہ سکھاتا رہتا ہے کہ عورت کو objectify مت کرو۔ اسے عزت دو اور عزت کا سادہ مطلب یہی ہے کہ اس کی طرف اپنی فطری جنسی کشش کے جذبے کا انکار کرو۔

آسان لفظوں میں یہ ایک خودساختہ لبرل اخلاقی تصور ہے کہ عورت کی طرف کشش محسوس کرنا غیر اخلاقی ہے۔ یعنی آپ کے جسم نے اگر فطری ردِعمل دیا تو اخلاقی عدالت نے فوراً سزا سنا دی۔ المیہ یہ ہے کہ یہی نظام، جو مرد سے یہ کہتا ہے کہ کشش محسوس نہ کرو، خود ہر لمحہ عورت کو اس کے نسوانی خدوخال تک محدود کرکے پیش کرتا ہے۔ اشتہاروں سے لے کر ڈراموں تک، فیشن شو سے لے کر کار کے TV کمرشل تک، ہوٹل کے استقبالیہ سے لے کر ایئر ہوسٹس تک، ہر جگہ عورت کو ایک برانڈ ویلیو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی وہی نظام جو نصیحت کرتا ہے کہ عورت کو object مت بناؤ، خود عورت کو سب سے زیادہ objectify کرتا ہے (اس معاملے میں نظام صنفی امتیاز نہیں رکھتا اور مرد و عورت کو یکساں objectify کرتا ہے، لیکن عورت اپنے نسوانی حسن اور خوبصورتی کے باعث ایک خاص قسم کی sexual objectification کا شکار ہوتی ہے، جو کہ مردوں کے معاملے میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے)۔ بس یہ کام زیادہ قیمتی کیمرے اور نرم روشنی میں کیا جاتا ہے۔ حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مسلمان عورتیں اور مرد اور معاشرے تک ایک سے زیادہ شادی کی خواہش کرنے والے مرد کو جنسیت کا طعنہ دیتے ہیں، بلکہ جانور سمجھتے ہیں۔

اس غیر فطری اور تضاد بھرے ماحول کا نتیجہ یہ ہے کہ اب نہ مرد عورت کی عزت کر پا رہا ہے، نہ عورت مرد کو انسان سمجھ پا رہی ہے۔ دونوں کے درمیان ایک ایسا فاصلہ آ گیا ہے جسے کوئی جینڈر اسٹڈی یا ریلیشن شپ تھراپی پاٹ نہیں سکتی۔ عملی سطح پر باہمی انسانی تعلقات میں یہ ماحول کن نتائج کو سامنے لاتا ہے اس کا ایک پہلو نیٹ فلکس پر دستیاب Liberated نام کی ڈاکیومنٹری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مرد و عورت اب ایک دوسرے کے rival بھی ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ ساتھ چلنا مجبوری ہے، مگر ساتھ ہونا ممکن نہیں اور یہ اس دور کی بہت بڑی آزمائش ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari