Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohrab Naseer
  4. Jamaat e Islami Ka Kirdar

Jamaat e Islami Ka Kirdar

جماعت اسلامی کا کردار

جماعت اسلامی کا مسئلہ محض سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی اور ادارہ جاتی ہے۔ جماعت ایک منظم تنظیم ہے جو اپنے کارکنان کی فکری و شعوری تربیت کے ایک مربوط نظام پر فخر کرتی ہے، لیکن یہ تربیت جس فکری بنیاد پر استوار ہے، وہ جدیدیت (modernity) کے انہی اصولوں پر قائم ہے جنہیں جماعت بظاہر رد کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر کا ایک بنیادی تضاد یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو ایک "نظام" کے طور پر جدید سیاسی اصطلاحات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ اس نظریاتی ماڈل نے دین کو تہذیبی، روحانی اور اخلاقی تنوع سے کاٹ کر ایک نظامی، آمرانہ اور شعوری مرکزیت رکھنے والی تنظیم میں تبدیل کر دیا۔

جماعت کے تربیت یافتہ افراد میں ایک خاص طرح کی فکری یکسانیت، تنظیمی سختی اور عوام سے فاصلہ پایا جاتا ہے۔ یہ تربیت فرد کو آزاد فکری جستجو کے بجائے تنظیمی مفادات کی تابع بناتی ہے اور ان کے رویوں میں عوام دشمنی اور سیاسی موقع پرستی عام کرتی ہے۔

اسی پس منظر میں جماعت اسلامی کا موجودہ کردار سمجھنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ آج بھی جماعت وہی کردار ادا کر رہی ہے جو وہ ماضی میں البدر، ضیاء الحق، افغان جہاد یا کشمیر پالیسی کے دوران کرتی رہی۔ جماعت کا اصل کام مقتدرہ کے لیے ایک اخلاقی و مذہبی پردہ اور سہارا فراہم کرنا ہے۔ اس وقت وہ مقتدرہ جو ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کر چکی ہے، اسے امن کا سفیر قرار دے چکی ہے اور امریکی انتظامیہ کے ان چہروں کو اعزازات دے رہی ہے جو غزہ میں جاری نسل کشی کے مرکزی کردار ہیں، جماعت اسلامی اس کے خلاف کوئی مزاحمتی بیانیہ نہیں بنا رہی۔

اس کے برعکس، جماعت اپنی پوری توانائی اس شخصیت کے خلاف صرف کر رہی ہے جو اس وقت مقتدرہ کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ جماعت کو بخوبی معلوم ہے کہ موجودہ اسمبلی جعلی اور دھاندلی ذدہ ہے اور عمران خان اس وقت ملک کی اسی فیصد عوام کی سیاسی ترجمانی کر رہا ہے۔ اس کے باوجود جماعت اپنی قوت عوام اور ان کے نمائندے کے خلاف استعمال کر رہی ہے، گویا اس کی حقیقی سیاست اسٹیبلشمنٹ کے لیے راستہ ہموار کرنے پر مرکوز ہے نہ کہ اسے مشکل میں ڈالنے پر۔

یہ وہ عملی و فکری تضاد ہے جس سے جماعت اسلامی کی فکری ساخت اور ادارہ جاتی ذہنیت دونوں بے نقاب ہوتے ہیں اور یہ تضادات جماعت اسلامی کی سیاسی تاریخ کے ہر موڑ پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جماعت جس "اسلامی سیاست" کا دعویٰ کرتی ہے، وہ درحقیقت ایک ریاستی اسلام ہے، ایسا اسلام جو طاقت کے مراکز کے ساتھ ہم آہنگ رہے، نہ کہ ان کے خلاف ایک اخلاقی اور فکری مزاحمت بنے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam