Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohrab Naseer
  4. Ghaza Hamare Maathe Ka Zakhmi Jhoomar

Ghaza Hamare Maathe Ka Zakhmi Jhoomar

غزہ ہمارے ماتھے کا زخمی جھومر

تہذیبی اور دینی تناظر باقی نہ رہے تو شعور مفلوج ہو جاتا ہے۔ انسان اُن تاریخی اور انسانی حقائق کو، جن کا انکار ممکن نہیں، اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھتا ہے مگر پہچان نہیں پاتا۔ غزہ میں جو کچھ ہوا اور جیسا ہوا، اس کے بعد کچھ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اگر آخرکار معاہدہ ہی کرنا تھا تو پھر حملہ کیوں کیا گیا؟

استاد نے بجا فرمایا کہ آقائے سرسید نے ہماری تہذیبی کایا اس طرح پلٹ دی کہ اب کوئی تناظر باقی نہیں رہا، نہ دینی، نہ تہذیبی، نہ ملی اور نہ انسانی۔ سب کچھ فنا ہو چکا ہے۔ ہم حریت، جدوجہد اور قربانی کے مفاہیم تک بھول گئے ہیں۔ وہ عظیم انسانی آدرش جو کبھی ہماری روح کا حصہ تھے، اب ہمیں حماقت یا گزرے زمانوں کی دیومالائی کہانیاں محسوس ہوتے ہیں۔ ہم بھول گئے کہ قومیں اپنی تاریخ خون سے لکھتی ہیں، خواہ وہ میدانِ جنگ میں بہا ہوا خون ہو یا نوکِ قلم سے رسنے والا خونِ جگر۔ اہلِ غزہ نے خود کو تاریخ کا ایک گمنام باب، ماضی کا قصہ یا جدید دنیا کے کسی معمولی سیاسی یا سٹریٹجک واقعے میں تبدیل ہونے سے روک دیا اور اس کی قیمت اپنے خون سے ادا کی۔

غزہ اب مسلمانوں یا فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ اب پوری انسانیت کا مسئلہ ہے، رنگ و نسل سے ماورا ایک ایسا زخم جو جدید تہذیب کے ماتھے پر نمایاں ترین داغ بن کر ابھرا ہے۔ اس ایک واقعے نے جدید معاشی و سیاسی بندوبست، اس کے اصولوں، نظام اور تہذیبی چہرے کو مکمل طور پر برہنہ کر دیا ہے۔ اس نے ہمارے مسلم حکمرانوں، مقتدرہ اور ان کے سہولت کاروں کی حقیقت بھی بے نقاب کر دی ہے۔ یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ ہم آج بھی نوآبادیاتی (colonial) دور سے باہر نہیں نکل سکے۔ زنجیریں بدل گئی ہیں، آقا نیا آ گیا ہے، مگر اس کی فطرت اور جبر ویسا ہی ہے، بلکہ اب کہیں زیادہ سفاک اور بےرحم ہو چکا ہے۔

حماس کے حملے سے پہلے غزہ ایک "conflict" تھا، جدید دنیا کے میٹرکس میں ایک glitch، ایک پھوڑا جسے سائنسی و سٹریٹجک علاج کے مطابق ختم کر دینا طے ہو چکا تھا۔ ابراہیم اکارڈ (Abraham Accords) کا پورا منصوبہ اسی "علاج" کو عملی شکل دینے کی ایک اسکیم تھا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر سعودی ولی عہد اسرائیلی سرحد کے قریب ایک جدید شہر تعمیر کر رہا تھا جو تمام ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کو ایک ہی منظر میں عبادت اور دنیاوی کھیل تماشے دکھانے کا وعدہ تھا۔ یعنی غزہ کا حل محض ایک سیاسی معاملہ نہیں تھا، بلکہ جدید نظام کی خاصیت کے مطابق معیشت و سیاست دونوں پہلو اس میں شامل تھے۔ یعنی اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے گا، اہلِ غزہ مٹ جائیں گے اور تاریخ کی گرد میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائیں گے اور کاروبار پھلتا پھولتا رہے۔

مگر آج حالات بدل چکے ہیں۔ اب معاہدہ وہ کر رہے ہیں جنہوں نے خون دیا ہے اور وہ جو بھی معاہدہ کریں گے، وہ تاریخ کی گرد میں گم نہیں ہونے والا۔ غزہ اب صرف ایک مقام یا واقعہ نہیں رہا، یہ ایک احساس ہے، ایک زخم ہے جو ہر اُس دل نے محسوس کیا ہے جس میں انسانیت کی رمق باقی ہے۔ یہ احساس نسلوں میں منتقل ہوگا۔ اس کے لیے کسی کتاب، کسی ریاستی بیانیے یا کسی ڈسکورس کی حاجت نہیں۔ زندہ قومیں قربانیاں دیا کرتی ہیں اور اصل تاریخ ہمیشہ قربانیوں کی داستان ہوا کرتی ہے۔

لازم نہیں کہ جدوجہد کا حاصل مادی ہو، انسان جانور نہیں کہ اپنی کوشش کا پھل فوراً حاصل کر لے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ عزم، غیرت اور استقامت کیا ہوتی ہے اور یہ مثال ہمارے ہی مسلمان بوڑھوں، عورتوں، بچوں اور جوانوں نے قائم کی۔ اگر ہمارا کوئی تہذیبی، دینی یا ملی تناظر زندہ ہوتا، تو غزہ ہمارے ماتھے کا جھومر ہوتا، ایک ایسا جھومر جو خون میں نچڑا ہوا ہے، مگر جس کی چمک سے انسانیت کا باطن منور ہو سکتا ہے۔ لیکن شرط ہے کہ ضمیر زندہ ہو، غیرت کی رمق باقی ہو اور اپنی تہذیبی اور دینی شناخت پر شرمندگی نہ ہو۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari