Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohrab Naseer
  4. Dunya Ko Falasteeni Ki Nazar Se Dekhen

Dunya Ko Falasteeni Ki Nazar Se Dekhen

دنیا کو فلسطینی کی نظر سے دیکھیں

غزہ کا المیہ جب وقوع پذیر ہوا اور اہل غزہ نے بنا لڑے مرنے سے انکار کر دیا تو دو پہلو تھے جو کبھی بھی نظر سے اوجھل نہیں ہو پائے۔ اب سیز فائر کی باتیں چل رہی ہیں اور ظلم و بربریت کے اس منظر نامے میں ظالم کچھ وقت کیلئے کسی اور جانب اپنی توجہ مرکوز کرنے جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ دو پہلو دوبارہ پوری شدت سے ذہن و دل کو جکڑے ہوئے ہیں۔

سب سے تکلیف دہ اور مشکل پہلو بچوں کی اموات کا تھا۔ لیکن مرنے والوں سے زیادہ تکلیف بچ جانے اور زخمی ہونے والے بچوں کی حالت کو سوچ کر ہوتی تھی۔ گھر اور خاندان میں درجنوں بچے ہیں اور سبھی ماشااللہ بہت مانوس ہیں۔ بس ایک احساس تھا کہ وہ بچے کیسے جیتے ہوں گے جنھیں یہ پتہ ہوتا ہوگا کہ کسی بھی وقت آسمان سے بم گر سکتا ہے اور میں مر سکتا ہوں۔ ایک مشین آئے گی اور میں یا میری ماں یا میرا باپ یا بھائی کوئی مر جائے گا۔

خصوصاً تین چار سال سے بڑے بچے بہت زیادہ متجسس ہوتے ہیں۔ نہ جانے کیا کرتے ہوں گے۔ وہ بچے جو باشعور ہونے کے ابتدائی مراحل میں ہیں اور ٹیکنالوجی سے واقف ہوں گے وہ جانتے ہوں گے کہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے لیکن کوئی ظالم کو روک نہیں رہا۔ ان کے ماں باپ کیا کہتے ہوں گے ان کے سوالات کو سن کر۔ الله کسی انسان پر یہ وقت نہ لائے۔

دوسرا پہلو جو بہت حیران کر دیتا تھا اور حیرت بھی ایسی کہ پریشانی ہوتی تھی کہ یہ کیسے نوجوان ہیں جو پورے مغرب سے ٹکرا گئے ہیں۔ یہ بہادر تو ہیں ہی لیکن یہ رحمدلی اور اصول پسندی کی اس معراج پر ہیں اور ان کے کردار کی بلندی ایسی ہے کہ ان پر ظلم کر رہی قوم کے لوگ بھی ان سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔ اس ضمن میں حماس کی قید سے رہا ہونے والوں کی گواہیاں موجود ہیں۔

اہل غزہ نے انسانی اور ایمانی حریت اور بلند کرداری کی جو مثال قائم کی ہے اور جس بہادری کا مظاہرہ کیا ہے اس نے پوری دنیا میں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ حتیٰ کے امریکی جامعات میں غیر سیاسی نوجوانوں اور پروفیسروں نے اہل غزہ کیلئے ریاست اور سسٹم سے باقاعدہ مار کھائی ہے۔ ہاں ہم مسلمان مجموعی طور پر سوشل میڈیا پر لکھنے کے سوا کچھ خاص نہیں کر سکے۔ عوامی اور انفرادی سطح پر ممکن بھی یہی تھا۔

حماس میں اس وقت لڑنے والی نسل وہ نسل ہے جو اسی ظلم و بربریت کے مسلسل احساس یا اس کو براہِ راست سہنے کے بعد جوان ہوئی۔ ان کے سامنے جدید دنیا کی ساری ترقی، عظمت، انسانیت کی ہمدردی اور محبت سب ننگا ہوا پڑا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ یہ مہذب دنیا کس قدر بے حس اور غیر انسانی ہے۔ اس کا تشکیل دیا ہوا انسان، اس کی ٹیکنالوجی، اس کا فلسفہ اور اس کا بنایا ہوا نظام کس قدر خوفناک ہیں۔

یہ نوجوان سسٹم اور جدید ریاست و نظام سے بغاوت کر چکے اور اس کے جبر کے تحت تبدیل ہونے سے انکار کر چکے ہیں۔ استاد محمد دین جوہر کے الفاظ میں کہا جائے تو اسرائیل جدید ریاست کا وہ ideal version جو یہودیوں نے Auschwitz میں دیکھا تھا۔ غزہ ایک concentration camp ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ Auschwitz میں ظالم دنیا سے چھپا کر انھیں مار رہا تھا جبکہ مظلوم کو شاید یہ امید رہی ہو کہ اگر کسی کو خبر ہو جائے تو ہم بچ جائیں۔ جبکہ غزہ میں ظالم سب کے سامنے مار رہا ہے، اس پر فخر کر رہا ہے اور مظلوم کو بھی معلوم ہے کہ کوئی مدد تو نہیں آ سکتا الٹا جدید دنیا، اس کے علم، ٹیکنولوجی، عظمت اور انسانیت کے سب بڑے علمبردار ظالم کو مزید ہتھیار دیں گے کہ مارو انھیں۔ اس سب کے باوجود وہ مایوس نہیں ہوئے، بزدل نہیں بنے، ظالم سے التجا نہیں کی بلکہ لڑنے کا فیصلہ کیا اور لڑ کر مرنے کو ترجیح دی۔

حماس کے act of defiance اور اہل غزہ کہ اس قدر قربانیوں کے باوجود اپنے نوجوانوں کے خلاف نہ جانے اور ان کا سودا نہ کرنے کے عمل کی موجودہ انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم سسٹم کے تشکیل دیے ہوئے اور سسٹم سے جڑے ہوئے انسان اپنے اندر ایسے کسی احساس اور عمل کی صلاحیت نہیں ڈھونڈ پاتے۔ اہل غزہ اور دنیا کے تمام انسانوں میں فرق ہے۔ وہاں پیدا ہونے اور شعور کی عمر کو پہنچنے والا انسان پوری دنیا میں سب سے منفرد اور مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں عوامی سطح پر یہ عمل بھی دیکھنے کو ملا کہ لوگ قرآن اور اسلام کے متعلق پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ مایوس ہونے یا ہمت ہارنے کی بجائے ایسے behave کر رہے ہیں۔ تکلیف جدید انسان کیلئے بہت بڑا evil ہے۔ جدید نظام اور سسٹم کا تشکیل دیا ہوا انسان ساری زندگی تکلیف سے بچنے کی کوشش اور اenjoyment کی تلاش میں بسر کرتا ہے۔ اس انسان کو تکلیف ملے تو existential crises میں مبتلا ہو جاتا ہے یا ردعمل میں انتہائی بے حس اور کمینہ بن جاتا ہے۔ اہل غزہ سو فیصد اس کے الٹ behave کر رہے ہیں۔

بطور مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم جدید دنیا کو کسی فلسطینی کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ آپ کو انسانیت کے مامے چاچے جو کہ بہت زیادہ ہیں ہر طرف نظر آتے ہیں۔ جو پتھر اٹھاؤ، جس روزن سے اس نظام کے باطن میں جھانکو اس پر انسانیت کے چیمپئن کا ٹیگ لگا ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسانیت اس پورے نظام اور فلسفے میں ایک دیومالائی سی کوئی entity ہے جس کی اس پورے نظام میں کوئی تعریف سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ انفرادی سطح پر ہر ایک کا انسانیت کا اپنا ایک پیمانہ ہے اور نظام کیلئے انسان ایک نمبر ہو۔ شناختی کارڈ نمبر، یا موبائل نمبر یا فلاں نمبر۔

یہ انسانیت نامی چیز کی کتابی تعریف اس نظام میں یا تو ایک جانور کی ہے social animal یا پھر ایک ٹول ایک مشین کی ہے۔

فلسطین ہمیں وہ تناظر مہیا کرتا ہے کہ جس کی مدد سے ہم جدید دنیا کو سمجھنے کی کوشش کریں تو کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ پوری دنیا بشمول ہمارے جدید ریاستی نظام میں جی رہی ہے۔ کوئی اسلامی ملک، اسلامی جمہوریت اور sovereignty belongs to God سے ریاست کی مسلمانی نہیں ہوتی۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ گزشتہ تین سو سال سے ہم نے جو علمی و عملی تجربے کیے ہیں سب ناکام ہوئے ہیں۔ ہم مغرب کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔

ہمارا جدید دنیا کا فہم اور اس فہم کی بنیاد پر کیے گئے اعمال اپنا گھر اجاڑنے اور غلامی کو مزید پختہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔ ہم کسی بھی سطح پر جدید دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ نہ علم میں اور نہ ہی عمل میں۔ وہ جنھیں لگتا ہے کہ ہمارے مولویوں کو طاقت نہیں ملی وہ افغانستان کو دیکھ لیں۔ مل گئی مولویوں کو طاقت۔ کیا اکھاڑ لیا انھوں نے۔ وہ بھی پورا زور لگا کر اپنے ہی ملک میں خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے۔

ہاں پاکستان میں امید کی ایک کرن ابھی باقی ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ ایک شخص کی رہنمائی میں سب کچھ داؤ پر لگا کر اپنا معاملہ الله کے حوالے کر چکے ہیں۔ ان کی لڑائی چونکہ مقامی سہولت کاروں اور منافع خوروں سے ہے تو یہ لڑائی نہتے ہو کر لڑی جا رہی ہے اور یہی درست راستہ ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali