Aqal Aur Emaan
عقل اور ایمان
گزشتہ کچھ دن سے عقل کی ایک سادہ تعریف کے ساتھ لڑتے جھگڑتے اور بساط بھر سمجھنے میں گزرے ہیں۔ استاد نے عقل کی ایک مختصر اور سادہ تعریف لکھی ہے کہ "یہ ذہن کا ایسا ملکہ ہے جو معلومات، احکام، اقدار اور اصول میں پہلے سے موجود ان کے خلقی امتیازات کو پہچان سکے اور ان امتیازات کو تفصیل دے سکے"۔
عقل ذہن کا ایک ملکہ ہے، ایک صلاحیت، یہ ہمارے شعور کی ایک صفت ہے۔ اس کا مکمل بیان نہیں۔ یہ ملکہ کیا کام سرانجام دیتا یے، اس کی functionality کیا ہے وہ اس تعریف میں بہت واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے کام کی حقیقت امتیازات کی پہچان ہے۔ یعنی عقل کا کام امتیازات پیدا کرنا نہیں بلکہ ان کی شناخت (recognition) ہے۔ یہ وجود اور عدم، علت و معلول، ممکن و واجب کے فرق کو سمجھ سکتی ہے اور اس کی تفصیل بیان کر سکتی ہے۔ اسے ہم یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ عقل اشیاء کو پیدا نہیں کرتی، نہ ہی اس کا کام امتیازات کو پیدا کرنا ہے۔
اس کا کام اشیاء کے درمیان فرق کو پہچاننا اور اسے بیان (articulate) کرنا ہے۔ یعنی کسی شے کی "حقیقت" کا براہ راست ادارک عقل کے بس میں نہیں۔ یہ اشیاء کے ظاہر کا ادارک رکھتی ہے۔ اسی بنیاد پر یہ امتیازات کی شناخت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقل اشیاء کی "حقیقت" Thing in itself تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ نتیجہ کانٹ کا بھی تھا اور یہی تصور عقل ہمارے متکلمین کا تھا۔ (اس حقیقت کا اظہار استاد نے کیا تھا اور اس پر عقل بند طبقے نے بہت شور مچایا تھا) عقل اشیاء کو دلیلوں کی زنجیر میں پرو سکتی ہے اور غالب گمان (preponderant probability) پیدا کر سکتی ہے۔
لیکن یقین (certainty) محض عقل کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ عقل کا خلقی ڈھانچہ چونکہ امتیازات کو پہچاننے تک محدود ہے، نتیجتاً حقیقت کو کُلی طور پر گرفت (grasp) میں لینا عقل کیلئے ناممکن ہے۔ عقل جزوی اور ظاہری سطح پر چیزوں کا ادراک کر سکتی ہے۔
اس بات کو واجب الوجود کی بحث سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ عقل واجب الوجود کے تصور تک ایک سلبی (Apophatic) انداز میں پہنچتی ہے۔ یعنی جو چیز عدم کو قبول نہ کرے، جس کا وجود اپنی ذات میں ضروری ہو، وہی اصل حقیقت ہے۔ مگر یہ سلب اور نفی ہے، ایجاب (positive intuition) نہیں۔ عقل یہاں عدم کی نفی کرتی ہے، لیکن حقیقت کی ایجابیت کا براہ راست اداراک حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ عقل یہ دکھاتی ہے کہ وجودِ ممکن اپنی علت کا محتاج ہے اور یہ سلسلہ علت و معلول کہیں جا کر کسی غیر محتاج، غیر معلول ہستی پر ختم ہونا چاہیے۔
عقل واجب الوجود کو دلیل سے واضح تو کر دیتی ہے لیکن اس کی حقیقت کو حیطہ ادارک میں لانے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ عقل محض یہ واضح کر سکتی ہے کہ وجودِ واجب زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہے، مادیت سے ماورا ہے، مادی علل کا پابند نہیں ہے اور کسی خارجی علت کا محتاج نہیں ہے۔ یہ نتیجہ عین عقلی (purely rational) بنیادوں پر مرتب ہوتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ کار " سلبی" (via negativa) ہے۔ یعنی یہ بتایا جا رہا ہے کہ خدا کیسا نہیں ہے۔
لیکن جب عقل مثبت طور پر خدا کے وجود کا اثبات کرنا چاہتی ہے، یہ کہنا چاہتی ہے کہ وہ کیا ہے، ایک اثباتی دلیل (positive claim) لانے کی کوشش کرتی ہے، تو وہ محسوس کرتی ہے کہ یہ اس کے دائرہ کار سے باہر کی بات ہے۔ یہاں عقل اپنے فطری میدانِ عمل سے نکل کر کسی اجنبی زمین پر قدم رکھتی ہے۔ وجودِ واجب ہر اس تصوراتی زمرے سے بالاتر ہے جس کے ذریعے عقل دنیاوی اشیاء کو سمجھتی ہے اور یہ بہت اہم بات ہے۔
کانٹ نے جو انسانی شعور کے سٹرکچر کی بات کی تھی وہ بھی کسی حد تک اس سے ملتی جلتی ہے۔ خدا نے اپنے متعلق کہا ہے کہ "لَیُسَ كَمِثُلِهٖ شَیُءٌۚ" اور ہم واجب الوجود کی بحث میں عقلی طور پر یہی ثابت کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک علت اولی ہونی چاہیے اور عقیدے کے مطابق یہ خدا ہی ہے اب ہم نے عقلی طور پر دکھانا ہے کہ فلاں فلاں چیز علت اولی نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی خدا نہیں ہے، وہ بھی نہیں ہے اور خدا ایسا نہیں ہو سکتا، خدا ویسا بھی نہیں ہو سکتا۔ یعنی عقل ایک وجودِ لازم تک ہمیں پہنچا دیتی ہے اور عقل کی بنیاد پر ہم یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ وہ کیا نہیں ہو سکتا۔
وہ کیا ہے (positive claim) صرف خبر صادق سے آتا ہے۔ ایمان انھی معنوں میں عقلی نہیں ہوتا کہ وہ ایک positive claim ہوتا ہے۔ فرشتے ہیں اور وہ نوری مخلوق ہیں یہ دنوں positive claims ہیں۔ لیکن یہ عقل سے ثابت نہیں ہو سکتے، نہ فرشتوں کا ہونا اور نہ ان کا نوری ہونا۔ ہم عقیدہ کو رہنما مان کر عقل کے ذریعے فرشتوں کے وجودی امکان کو ثابت کر سکتے ہیں۔ یعنی عقلی طور پر فرشتوں کا وجود محال نہیں ہے۔ یعنی معاملہ بقیہ سبھی ایمانیات کا ہے۔
عقل اور ایمان کا یہ فرق جدیدیت (modernity) میں کہیں گم ہو چکا ہے۔ جدید زمانے نے عقل کو ایک خودمختار منصف کے طور پر پیش کیا۔ مادیت (materialism)، نیچرل ازم (naturalism) اور دہریت (atheism) جیسے جدید فکری مکاتب نے یہ اعلان کیا کہ حقیقت صرف وہی ہے جو عقل اور تجربہ سے جانچی جا سکتی ہے۔ مگر غور کیا جائے تو یہ اعلان بذاتِ خود ایک عقیدہ (faith commitment) ہے۔ یہ کہ "صرف وہی چیزیں حقیقی ہیں جو تجربہ سے ثابت ہو سکیں "، یہ اصول خود تجربے سے ثابت نہیں ہوتا۔
یہ ایک غیر تجربی دعویٰ ہے، ایک metaphysical ایمان، جو اپنے آپ کو عقل کے لباس میں چھپا لیتا ہے۔ یوں جدید مادیت اور نیچرل ازم، جو بظاہر ایمان کی نفی کرتے ہیں، درحقیقت ایمان کی ہی کسی اور صورت کے حامل ہیں۔ ان نظام ہائے فکر(world views) میں عقل اسی طرح ایک خادم (servant) کی حیثیت رکھتی ہے، جیسا کہ ہمارے کلامی تناظر میں ہوا کرتا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایمان کا مرکز بدل گیا ہے۔ اب جدید ذہن لامحدود الٰہی حقیقت کی بجائے محدود مشاہداتی دنیا پر ایمان رکھتا ہے۔ جدیدیت میں عقل ایک دائرے میں گھومتی ہے۔
پہلے ایک مادی تعبیر (material interpretation) کو فرض کر لیتی ہے، پھر ہر چیز، چاہے وہ خوبصورتی (aesthetics)، نظم (purposeful organization of nature)، شعور (consciousness)، اخلاقیات (morality) ہی کیوں نہ ہوں، کو اسی فرضی تعبیر کے تحت تاویل کرتی ہے۔ نہ کہ اس لیے کہ ان کی حقیقت واقعی مادی ہے، بلکہ اس لیے کہ اولین epistemological commitment کا یہ لازمی مطالبہ ہے کہ انہیں مادی مانا جائے یا مادی معنوں میں ان کی تاویل کی جائے۔ جدید دہریت عقلی نتیجہ نہیں بلکہ ایک نظام ہائے فکر (world view) ہے جو مادیت/ نیچرل ازم پر ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ خدا کے ماننے والے بھی اب اپنے ایمان کو عقل سے ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور تسلسل سے یہ باور کرواتے ہیں کہ خدا عقل سے " ثابت" کیا جا سکتا ہے۔ بقول استاد ایسا کرنا عقیدے کو فنا کر دینے کے مترادف ہے۔

