Social Media Aur Hamari Zimmedari
سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری
سوشل میڈیا کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ جہاں اس کے بہت سے فائدے ہیں، وہیں اس کا منفی پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میرے اپنے مشاہدہ نے بار ہا یہ دیکھا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات کتنی تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔ ایک معمولی افواہ، جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، صرف کچھ لمحوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس دوران لوگ بغیر سوچے سمجھے اسے آگے بڑھاتے ہیں، جس سے صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے۔
یہ مسئلہ خاص طور پر اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب نوجوان اور بچے سوشل میڈیا کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ بچوں اور کم عمر افراد کے لیے معلومات کے اس بظاہر نہ ختم ہونے والے سلسلے کا تجزیہ اور سمجھنا ممکن نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر گھنٹوں گزارنا بچوں کے لیے نفسیاتی اثرات کا باعث بن رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بچوں کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے، ان میں اضطراب اور بے چینی بڑھ رہی ہے اور وہ حقیقی زندگی کے تعلقات اور سرگرمیوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ساتھ جڑا ایک اور تشویشناک مسئلہ اس پر ہونے والی بحث و مباحثہ کی نوعیت ہے۔ لوگ اپنی رائے کے اظہار میں کسی حد تک جاتے ہیں، اور یہ عمل اکثر بے ہودگی اور ذاتی حملوں تک جا پہنچتا ہے۔ ہر کوئی خود کو ایک "رومن فلسفی" سمجھ کر اپنی دانشورانہ حیثیت ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس کے دوران ان کا رویہ جارحانہ اور بے ادب ہو جاتا ہے۔ یہ بحثیں، جو کبھی علم اور خیالات کے تبادلے کے لئے ہوتی تھیں، اب اکثر بے معنی اور فضول دلائل میں بدل جاتی ہیں۔
بچوں اور کم عمر افراد کے لیے یہ صورت حال خاصی نقصان دہ ہے۔ جب وہ ایسے غیر ذمہ دارانہ رویے دیکھتے ہیں، تو ان کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ادب اور احترام کیا ہوتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر موجود گالم گلوچ اور فضول مباحثوں کو معمول سمجھنے لگتے ہیں، جو ان کی اخلاقی تربیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، بچوں کے لیے یہ غیر محفوظ ماحول ان میں ذہنی دباؤ اور غیر ضروری جذباتی پریشانیوں کا باعث بن رہا ہے۔
اس گمنامی کا بھی ایک خاص حصہ ہے جو سوشل میڈیا پر لوگوں کو اپنی اصلی شناخت چھپانے کی اجازت دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بے خوفی سے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بے خوفی اکثر اوقات دوسروں کو تکلیف دینے اور ان کی عزت نفس مجروح کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بچے اور نوجوان، جو ابھی اپنے رویوں کو تشکیل دے رہے ہیں، ایسے طرز عمل سے بہت جلد متاثر ہو سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے منفی پہلوؤں کی بات کریں تو، ایک اور بات جو بار بار سامنے آتی ہے وہ ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال ہے۔ جب بچوں کی زندگیاں سوشل میڈیا تک محدود ہو جاتی ہیں، تو وہ حقیقی دنیا کی سرگرمیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کھیل کود، باہر کی دنیا کا مشاہدہ، اور دوستوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کم ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی کمزور کر سکتی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا انہیں محدود اور غیر تعمیری سرگرمیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔
میری یہ تشویش ہے کہ اگر ہم نے اس مسئلے کو نہ پہچانا تو اس کے اثرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو ہم سب استعمال کرتے ہیں، اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اسے ذمہ داری اور سنجیدگی سے استعمال کریں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہر ایک کی رائے کی قدر ہوتی ہے، اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت کریں اور اس پلیٹ فارم کو باہمی احترام اور تہذیب کے فروغ کا ذریعہ بنائیں۔ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک مثال بننا ہوگا، تاکہ وہ بھی سیکھ سکیں کہ اظہار رائے کیسے مہذب اور مثبت انداز میں کیا جاتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور سوشل میڈیا پر اپنے رویے کو بہتر بنائیں، تاکہ ہم ایک بہتر اور ہم آہنگ معاشرہ تشکیل دے سکیں۔