Insan He Insan Ka Dushman Hai
انسان ہی انسان کا دشمن
انسان ہمیشہ سے اس زمین پر اپنی فطرت کے ساتھ جڑا رہا ہے، ایک ایسی فطرت جس میں زیادہ تر اپنی بقا اور مفادات کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ وہ چیزیں جنہیں قدرت نے پیدا کیا، ان کا مقصد انسانوں اور دیگر مخلوقات کی فلاح ہے۔ لیکن انسان کی فطرت میں یہ بات کم ہی نظر آتی ہے کہ وہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کرے۔
اس دنیا میں قدرت نے ہر شے کو ایک مقصد کے تحت تخلیق کیا ہے۔ سورج کی تپش اور حرارت اس کے اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کے لیے ہے۔ سورج اپنی روشنی کو بلا معاوضہ ہر ایک کے لیے دستیاب کرتا ہے، چاہے وہ جانور ہوں، پودے ہوں یا انسان۔ وہ فیوژن کے ذریعے پیدا ہونے والی توانائی کو تقسیم کرتا ہے تاکہ زندگی زندہ رہ سکے۔ اسی طرح چاند اور ستارے اپنی روشنی کو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے پیش کرتے ہیں۔ یہ اندھیری راتوں میں روشنی پھیلا کر راہ دکھاتے ہیں، اور انسانوں کے لیے منزلوں تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اگر ہم فطرت کی دیگر مخلوقات کی طرف دیکھیں تو یہ بات اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔ ریشم کا کیڑا اپنی تمام عمر میں ریشم بُنتا ہے، لیکن اس کا فائدہ خود اسے نہیں ہوتا، بلکہ انسانوں کو ہوتا ہے۔ پھولوں کی خوشبو اور رنگ بھی دوسروں کے لیے ہیں، وہ ان کا فائدہ خود نہیں اٹھاتے۔ درخت اپنے پھل پیش کرتے ہیں، لیکن خود ان سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ شہد کی مکھی شہد پیدا کرتی ہے، لیکن اس کا بڑا حصہ دوسروں کے لیے ہے۔ یہ سب مخلوقات اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کرتی ہیں، اور ان کی یہ قربانی بلا عوض ہوتی ہے۔
مال برداری کے جانور جیسے اونٹ، بیل، گھوڑا، گدھا اور خچر اپنی طاقت سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں، زمینیں جوتتے ہیں، بوجھ اٹھاتے ہیں، اور بدلے میں کچھ بھی نہیں مانگتے۔ اسی طرح گائے، بکری، اور بھیڑ اپنے گوشت، دودھ، اور چمڑے کو انسانوں کے لیے پیش کرتی ہیں۔ یہ سب مخلوقات اپنی خدمات کو بے لوث طریقے سے انجام دیتی ہیں، ان کی زندگیوں کا مقصد دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنا ہوتا ہے۔
لیکن انسان وہ منفرد مخلوق ہے جو خود سے سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے، مگر بدلے میں دوسروں کو دینے سے کتراتا ہے۔ وہ خود غرضی اور ذاتی مفادات میں گِھرا ہوا ہے۔ انسانوں کی اکثریت اپنے ہم جنسوں سے جینے کا حق بھی چھین لیتی ہے۔ وہ جانوروں اور دیگر انسانوں کو کرب میں مبتلا کرکے انہیں اذیت ناک موت کی جانب لے جاتا ہے۔ خود وہ زمین پر جنت جیسی زندگی گزارنا چاہتا ہے، مگر دوسروں کے لیے زندگی کو جہنم بنائے رکھتا ہے۔
کائنات کے ہر بے جان اور جاندار وجود نے ہمیشہ بے لوث خدمت کا درس دیا ہے۔ وہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کا فائدہ بلا قیمت دوسروں تک پہنچاتے ہیں، جبکہ انسان اپنی خود غرضی میں مبتلا ہوکر دوسروں کی فلاح کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس نے اپنی بقا کی جنگ میں جنگوں میں، رشتوں میں، محبت میں، اور دھوکے میں دوسروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ اپنے رنگ اتنے تیزی سے بدلتا ہے کہ کوئی اور مخلوق اس کی مانند نہیں بدلتی۔ انسان اپنی ہی نسل کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہوتا ہے، دوست کے روپ میں دشمن، مسافر کے بھیس میں لٹیرا بن کر۔ سچائی کا دعویدار سچ سے دور ہوتا ہے، اور ایمانداری کا غرور رکھنے والا برتری کے احساس کا غلام ہوتا ہے۔
یہ انسان کی فطرت کا المیہ ہے کہ وہ سب کچھ بننے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ایک حقیقی انسان بن کر رہنا اس کے لیے مشکل رہا ہے۔ وہ اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا، جبکہ فطرت کی ہر مخلوق اپنی فطری خوبیوں کا فائدہ دوسروں کو پہنچانے میں اپنی خوشی محسوس کرتی ہے۔ یہ فرق انسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان بنیادی ہے۔
اس دنیا میں، انسان نے اپنی صلاحیتوں کو اکثر اوقات دوسروں کے لیے مصیبت بنا کر پیش کیا ہے۔ اس نے اپنی ذہانت کو تباہی کے ہتھیار بنانے میں استعمال کیا، اپنی طاقت کو دوسروں پر مسلط کیا، اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسروں کی زندگیوں کو برباد کیا۔ انسان کی فطرت میں ایک ایسا اندھا پن موجود ہے جو اسے صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسے دوسروں کی ضرورتیں اور ان کی مشکلات نظر نہیں آتیں، یا پھر وہ انہیں نظرانداز کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جنگیں ہوتی ہیں، معاشرتی ناانصافیاں بڑھتی ہیں، اور انسان ایک دوسرے کا دشمن بن جاتا ہے۔ انسانیت کو اس خود غرضی کے دائرے سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنی ذات کے گرد بنے ہوئے اس قید سے آزاد ہونا ہوگا تاکہ وہ دوسروں کی فلاح کے لیے کچھ کر سکے۔
انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خود غرضی سے نکل کر بے لوثی کی راہ اختیار کرے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ قومیں کامیاب ہوئیں جنہوں نے انسانیت کی خدمت اور دوسروں کی فلاح کو اپنا مقصد بنایا۔ اسکینڈینیوین ممالک، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ معاشرے اس بات کی مثال ہیں کہ جب انسان اپنے مفاد کو پیچھے چھوڑ کر اجتماعی بہتری کے لیے کام کرتا ہے تو وہ معاشرے میں خوشحالی اور امن کا ماحول پیدا کر سکتا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں انسان ایک دوسرے کے لیے زیادہ مفید اور کم نقصان دہ ثابت ہوئے۔
کامیاب قومیں ان اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہوئیں جو نہ صرف انسانوں کی فلاح کے لیے ضروری ہیں بلکہ معاشرتی ترقی کا بھی باعث بنتے ہیں۔ ان معاشروں میں لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اجتماعی بہبود کے لیے کام کیا، اور یوں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جو زیادہ پُرامن اور مفید تھا۔ یہاں انسانوں نے اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کیا، اور یہی وہ رویہ تھا جس نے ان کو کامیاب قوموں میں تبدیل کیا۔
اس راہ میں مذہب بھی ایک مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس کی تعلیمات کو انسانیت کی فلاح اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے، نہ کہ شدت پسندی اور تعصب کے لیے۔ مذہب کی تعلیمات بنیادی طور پر محبت، رحم دلی، اور دوسروں کی مدد پر زور دیتی ہیں، اور اگر انسان ان تعلیمات کو انتہاپسندی کے بغیر اپنائے تو وہ نہ صرف اپنی ذات بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بن سکتا ہے۔ دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، اور انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرنا سب سے بڑی نیکی ہے، اور یہی راستہ ہمیں اپنی فطری دشمنی سے باہر نکال سکتا ہے۔
اگر ہم اپنی خود غرضی اور ذاتی مفادات کو پیچھے چھوڑ کر اجتماعی بہتری کے لیے کام کریں، اور مذہب کی محبت و بھائی چارے کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں، تو ہم ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں جہاں انسان ایک دوسرے کے لیے مفید ثابت ہوں، اور دنیا ایک بہتر، پُرامن اور خوشحال جگہ بن سکے۔ یہی انسانیت کا حقیقی مقصد ہے، اور یہی اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کا راز ہے۔