Insani Fitrat, Nidamat Aur Rehmat e Ilahi
انسانی فطرت، ندامت اور رحمتِ الٰہی

ہم سب غلطیاں کرتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں اس فطرت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ ہم خطا کریں۔ ہر انسان دو قوتوں کے ساتھ مسلسل جدوجہد کرتا ہے جو اس کے اعمال پر اثر انداز ہوتی ہیں یعنی نفس (خود) اور شیطان۔ نفس ہماری اندرونی خواہشات اور اُس جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے، جس کو اگر قابو نہ کیا جائے تو ہمیں گمراہ کر سکتا ہے۔ دوسری طرف شیطان، جو ایک بیرونی دشمن ہے، نفس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہمارے اندر وسوسے ڈالتا ہے۔
یہ دونوں مل کر ہمیں صیح راستے سے ہٹانے اور خطا و گناہ کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر بھی اللہ نے اپنی حکمت سے ہمیں آزاد مرضی کے ساتھ پیدا کیا ہے اور غلطیاں کرنا انسانی فطرت کا حصہ رکھا ہے۔ لیکن ایک مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی پر دل میں پشیمانی اور ندامت محسوس کرتا ہے۔ یہ ندامت ایک نعمت ہے، اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہے کہ دل میں ایمان زندہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک مومن کی روح غلطی کو پہچانتی ہے اور روزِ قیامت کے حساب کتاب سے ڈرتی ہے، برخلاف ان لوگوں کے جو اپنے بُرے اعمال کو نظرانداز کرتے ہیں یا ان کا جواز پیش کرتے ہیں۔
جب ہم بچپن میں جان بوجھ کر یا انجانے میں کوئی غلط کام کرتے تھے تو ہمیں اکثر اپنے والدین کے ردعمل سے ڈر لگتا تھا کہ وہ ہمیں ڈانٹیں گے۔ پھر بھی ہم انہی کے پاس بھاگتے تھے تاکہ ان سے معافی مانگ کر ان کی پناہ میں خود کو محفوظ کر سکیں۔ یہی منطق اپنے خالق کے ساتھ تعلق پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے خالق کی طرف ندامت کے ساتھ بھاگتے ہیں اور اُس سے معافی مانگتے ہیں جب ہم کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو اللہ نے ہمارے لیے ممنوع قرار دیا ہے اور جس سے بچنے کا حکم دیا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے، تو ہمیں محتاط رہنا چاہیے اور اپنی حالت پر غور وخوض کرنا چاہیے کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے دل گناہوں کی گندگی سے سیاہ ہوگئے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بھول گئے ہیں کہ اپنے خالق کی رحمت کے بغیر ہم کتنے بے بس ہیں۔ گناہوں پر ندامت محسوس کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے اندر ایک اخلاقی شعور اور ضمیر موجود ہے جو صحیح اور غلط کے درمیان فرق کو سمجھتا ہے۔ جو ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمیں روحانی رہنمائی اور مدد کی ضرورت ہے۔ یہ ندامت ہمیں اللہ کی معافی اور رحمت طلب کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور ہمارے خالق کے ساتھ ہمارے تعلق کو مضبوط بناتی ہے۔
جب ہمیں کبھی احساس ہوجائے کہ ہم نے کوئی گناہ کیا ہے تو توبہ کرنا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ شیطان ہمیں یہ کہہ کر کہ بعد میں توبہ کر لیں گے توبہ میں تاخیر کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن توبہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالٰی قرآن کریم میں قیامت کے دن ہمارے اعمال کے انجام کی حقیقت کے بارے میں ہمیں خبردار کرتا ہیں کہ "اس دن انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاه کیا جائے گا" (سورۃ القیامہ، 75: 13)۔ اگر ہم توبہ میں تاخیر کریں گے تو یاد رکھیں کہ کل کا کوئی یقین نہیں۔ ہمیں اس شخص کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو کہتا ہے کہ میں کل توبہ کروں گا صرف اس لیے کہ وہ سو جائے اور کبھی نہ جاگے۔
اللہ تعالٰی کے ننانوے صفاتی ناموں میں ایک نام رحیم (سب سے زیادہ رحم کرنے والا) بھی ہے۔ لہذا ہمیں کبھی بھی اُس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم کبھی گمراہ ہو جائیں تو ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور فوراً واپس راہِ راست پر آنا چاہیے۔ ہمارا رب بے حد رحم کرنے والا ہے اور ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو خلوصِ دل سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ توبہ کی اہمیت پر متعدد احادیث میں بھی زور دیا گیا ہیں۔ ایک روایت میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آدم کا ہر بیٹا گناہ کرتا ہے اور گناہ کرنے والوں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں (ترمذی)۔
یہ حدیث اس بات پر زور دیتی ہے کہ غلطیاں کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے، لیکن اللہ توبہ کو اتنی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ یہ ایک گناہ گار کو اُس کے محبوب بندوں میں شامل کر دیتی ہے۔ ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اللہ کے بندے کی توبہ پر خوشی کو یوں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناََ تم میں سے کسی کے توبہ کرنے پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی شخص اپنی گم شدہ سواری (واپس) پا کر خوش ہوتا ہے (صحیح مسلم)۔ اللہ ایسے گناہ گار بندے سے محبت کرتا ہے جو توبہ کرتا ہے۔ بلکہ جس شخص کی توبہ قبول ہو جاتی ہے وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہ ہو۔ اللہ کی رحمت بے شمار و بے حساب ہے اور ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم اپنی کمزوری اور طاقت کے ہر لمحے میں اللہ کی طرف رجوع کریں۔
قرآن پاک میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جو ندامت اور توبہ کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان واقعات سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہیں کہ انسان فطری طور پر غلطیاں کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔ ان واقعات میں حضرت آدمؑ کے واقعے (جس سے ہم سب بخوبی واقف ہے) کو انسانی فطرت، بشری خصائل اور توبہ کی اہمیت کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح خلوص اور توبہ کے ساتھ گناہوں پر ندامت ہمیں دوبارہ اللہ کی طرف رہنمائی کر سکتی ہے۔ حضرت آدمؑ کے واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ غلطیاں انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ حتیٰ کہ اللہ کے بنائے ہوئے پہلے انسان حضرت آدمؑ بھی خطا میں مبتلا ہوئے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کوئی بھی شخص غلطیوں سے محفوظ نہیں ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ توبہ ایک طاقتور عمل ہے جو ہمارے تعلق کو اللہ کے ساتھ دوبارہ بحال کرتا ہے اور حتٰی کہ اسے مضبوط بھی کرتا ہے۔ اس واقعے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ اللہ کی رحمت سب چیزوں پر محیط ہے۔ اللہ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول کرکے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ کوئی بھی گناہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اگر ہم اللہ کی طرف خلوصِ دل سے رجوع کرکے توبہ کریں تو وہ معاف نہ کرے۔
حقیقی اور سچی توبہ کے بعد ایک اور اہم قدم جو ہمارے عزم کو مضبوط کرتا ہے وہ ہے اللہ سے ذاتی عہد کرنا۔ یہ عہد ہمارا ایک باضابطہ اقرار نامہ ہوتا ہے کہ ہم کوشش کریں گے کہ اپنی غلطی کو دوبارہ نہ دہرائیں۔ یہ عہد کرکے ہم سچے دل سے اپنی غلطی پر غور کرتے ہیں، اس کے اسباب کو سمجھتے ہیں، اپنی کمزوریوں کا پتہ لگاتے ہیں اور ان پر قابو پانے کا خلوصِ دل سے عزم کرتے ہیں۔
یہ عہد ہمیں اپنے راستے پر مرکوز رکھتا ہے اور ہماری توبہ کے ساتھ وفادار رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس عہد کو مضبوط بنانے کے لیے ہمیں اپنی غلطیوں کے اسباب پر غور کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کا مقابلہ کر سکیں۔ ہمیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، ذکر وغیرہ جیسی عبادات کے ذریعے اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنانا چاہیے۔ یہ اعمال دل کو پاک کرتے ہیں اور گناہوں سے بچانے کے لیے اسے مضبوط بناتے ہیں۔ اس ضمن میں اللہ کی یاد دلانے والے لوگوں کی صحبت میں رہنا ہمیں اپنے وعدے پر ثابت قدم رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
لیکن یہ سفر چیلنجز سے خالی نہیں ہے۔ جیسے ہی ہم اپنے وعدے کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ہمیں ایک بار پھر نفس اور شیطان کی طرف سے آزمائشوں کا سامنا ہو سکتا ہے، جو ہمیں دوبارہ غلطی کرنے کے لیے بہکاتے ہیں۔ چونکہ انسان فطری طور پر کمزور ہوتا ہے لہذا کمزوری کے باعث دوبارہ گناہ کرنا ممکن ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی رحمت کا دروازہ ہمیشہ کُھلا رہتا ہے۔ کوئی بھی گناہ اتنا بڑا نہیں کہ اللہ اسے معاف نہ کرے بشرطیکہ ہم اس کی طرف ندامت کے ساتھ لوٹیں اور ایک نیا عہد کریں کہ ہم دوبارہ وہی غلطی نہیں کریں گے۔ اللہ ہمیں ہمارے نفس اور شیطان کے وسوسوں سے بچنے کی طاقت دے اور ہم سب کی رہنمائی کرکے ہمیں اپنی وسیع رحمت سے نوازے۔