Admi Az Irfan Javed
آدمی از عرفان جاوید

اگر آپ نے آج کے دور کی کلاسک نثر پڑھنی ہے تو عرفان جاوید کی کتاب "آدمی" کا مطالعہ ضرور کریں۔ رواں اور خوب صورت طرزِ تحریر اور عمدہ تحقیق سے مرصع یہ کتاب خود کہتی ہے کہ مجھے ایک نشست میں پڑھا جائے۔کہنے کو تو یہ کتاب چھ لوگوں کے خاکوں پر مشتمل ہے مگر دراصل یہ عرفان جاوید کے اپنے ہی 6 مختلف روپ ہیں۔
آصف اسلم فرخی صاحب کی علمیت ہو یا اسحاق نور کی ستارہ شناسی و علم نجوم ہو، گبرائیل کی جہاں گردی ہو یا مطیع الرحمن کا علمِ دست شناسی، بڈی ماموں کی پُررونق زندگی ہو یا بانسری بابا کی درویشی، ہر رنگ میں عرفان کی جھلک نظر آئے گی۔
آصف اسلم فرخی صاحب کا خاکہ آپ کو لاہور اور کراچی کے ادیبوں اور ادبی زندگی کے ماحول سے نہ صرف آشنا کرتا ہے بلکہ کسی بھی نامور انسان کی پیچیدہ معاشرتی اور ذاتی زندگی کے پیچ وخم بھی دکھاتا ہے۔
اسحاق نور کا خاکہ بہت حیران کن ہے جو کہ بازارِحسن کے شب و روز سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی پاجانے والے ایک عام مگر غیر معمولی انسان کی زندگی کی داستان ہے جس نے زندگی اپنی مرضی کی شرائط پر بسر کی۔
گبرائیل کا خاکہ استنبول کا پورا سفرنامہ ہے جو کہ ہپی تحریک کے بیک گراونڈ میں جنم لینے والے ایک جہاں گرد کی داستان ہے۔ یہ سفر عرفان کے اولین دور کے افسانے "اولگا" کی تحریر کا بھی محرک بنا تھا جسے میں نے بہ زبانِ مصنف اشاعت سے کئی برس پہلے سنا تھا۔ اس خاکے میں آپ کو سول انجنئیر عرفان جاوید بھی نظر آئے گا جو کہ خالص ادبی انداز میں آپ کو استنبول کے مرکز کا نقشہ سمجھا رہا ہوتا ہے۔
مطیع الرحمن کا خاکہ عرفان کے دورِ شباب کے لا ابالی پن میں مطیع کے ساتھ کزارے گئے لمحوں کی یاداشتیں ہیں۔ تحریر کا دلچسپ حصہ وہ ہے جب عرفان لاہور کینٹ کے علاقے میں گھر کی دیوار پھلانگ کر اس کی گاڑی میں مدد کے لئے آنے والی لڑکی کو مطیع الرحمن کے پاس مستقبل بینی کے لیے لے جاتا ہے۔
بڈی ماموں کا خاکہ سب سے منفرد اور دلچسپ نظر آتا ہے۔ یہ ایک شوقین مزاج نوجوان کے قیامِ یورپ و امریکہ کی کہانی ہے جو ہمیشہ اپنے وقت سے آگے جیتا رہا۔ تمام عمر زندگی کی حسین یادیں ذخیرہ کرنے والا آخرِ عمر میں یاداشت کھو بیٹھا۔ اس خاکے کا انجام بہت جذباتی ہے جب اسے اپنا متروک یورپئین بیٹا مالدیپ میں جا ڈھونڈتا ہے۔
اقبال المعروف بانسری بابا کو میں خود کئی مرتبہ عرفان کے گھر مل چکا ہوں اور اس کے کتے سیزر سے بھی۔ یہ خاکہ میرے لئے بابا اقبال سے شناسائی ہونے کے سبب زیادہ دلچسپ رہا۔ یہ اللہ کی مخلوق سے محبت کرنے والے ایک عام سے نظر آنے والے خاص درویش کی داستان ہے جس سے چرند پرند اور حیوانوں کے دکھ بھی برداشت نہ ہوتے تھے۔
کتاب کی ہر سطر لاجواب اور ہر لفظ انتہائی محنت سے لکھا گیا ہے۔