Digital Screenain Aur Badalta Hua Culture
ڈیجیٹل اسکرینیں اور بدلتا ہوا کلچر

گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں تفریح کے ذرائع یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ جہاں پہلے لوگ پی ٹی وی یا مخصوص ڈراموں کے انتظار میں ہفتوں گزار دیتے تھے، اب نیٹ فلکس، ایمیزون پرائم، ہاٹ اسٹار اور دیگر او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے دنیا کی تمام فلمیں اور ویب سیریز انگلی کی ایک حرکت پر دستیاب کر دی ہیں۔ اس انقلابی تبدیلی نے تفریح کو بظاہر آسان اور جاندار بنا دیا ہے، مگر ساتھ ہی اس کے اثرات معاشرتی، نفسیاتی اور اخلاقی حوالوں سے شدید اور پیچیدہ ہو گئے ہیں (خاص طور پر پاکستانی نوجوانوں کے لیے)۔
آزادی یا بے راہ روی آج کے نوجوان کی تفریح کا محور موبائل اسکرین ہے۔ وہ دن میں گھنٹوں Elite، Money Heist، Sex Education اور Squid Game جیسے شوز دیکھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ مواد صرف وقت گزارنے کا ذریعہ ہے، یا اس کے پیچھے ذہن سازی اور اقدار کی تبدیلی کا کوئی منصوبہ بھی چھپا ہے؟
لاہور کے ایک اسکول میں اس وقت سنسنی پھیل گئی جب ایک نوعمر طالبعلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نیٹ فلکس کی سیریز "سکویڈ گیم" کے طرز پر تشدد کیا۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ اب "تفریح" صرف تفریح نہیں رہی، بلکہ ایک ذہنی پروگرامنگ کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔
اخلاقیات کا زوال بیشتر ویب سیریز میں فحاشی، عریانی، بے ہودہ گفتگو اور معاشرتی و مذہبی روایات سے بغاوت کو ترقی پسند انداز میں دکھایا جاتا ہے۔
تھرٹیں ریسن وائے اور سکویڈ گیم جیسی سیریز نے جہاں دنیا بھر میں خودکشی کے رجحانات میں اضافہ کیا، وہیں مرزا پور جیسے شوز نے مذہب اور تشدد کو مزاح یا ڈرامائی انداز میں پیش کرکے نوجوانوں کو ان معاملات سے بے حس بنا دیا۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں روایتی اقدار اور خاندانی نظام کو بڑی اہمیت حاصل ہے، وہاں اس قسم کے مواد سے متاثر ہو کر نوجوان نئی طرز زندگی اور غیر محسوس تبدیلیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
پاکستانی نوجوان جو پہلے ہی مشرقی روایات اور مغربی اثرات کے درمیان تذبذب کا شکار ہیں، مغربی ویب سیریز دیکھ کر اپنی شناخت کے بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ مغربی معاشروں میں انفرادی آزادی، جنسی خود مختاری اور مذہب سے دوری جیسے نظریات عام ہیں۔ جب پاکستانی نوجوان اس سب کو اسکرین پر "دلچسپ" اور "کول" انداز میں دیکھتے ہیں، تو انہیں اپنے خاندانی، مذہبی اور ثقافتی اقدار دقیانوسی لگنے لگتے ہیں۔
بزرگ طبقہ عموماً ویب سیریز کو "اخلاقی تباہی" کا ذریعہ سمجھتا ہے، جبکہ نوجوان نسل اسے علم، آگہی اور تفریح کا نیا ذریعہ مانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان اسکرین کے مواد پر بحث عام ہو چکی ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ آج کے بچوں میں تمیز، شرم اور حیا نہیں رہی، جبکہ نوجوان کہتے ہیں کہ وہ محض دنیا کو ایک نئے انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ "نظریاتی خلیج" وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، جس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ خلیج مستقبل میں معاشرتی بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔
جب پاکستانی ویب سیریز "چُڑیلز" ریلیز ہوئی، تو ابتدا میں اسے خواتین کی آواز اور آزادی کی علامت کے طور پر سراہا گیا، مگر جلد ہی مذہبی و ثقافتی حلقوں کے اعتراضات کی وجہ سے اسے ہٹا دیا گیا۔ اس اقدام پر ایک طبقے نے خوشی کا اظہار کیا کہ "غیر اخلاقی مواد" کو روکا گیا، جبکہ دوسرا طبقہ اسے اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیتا رہا۔ یہ واقعہ اس سوال کو جنم دیتا ہے: کیا ہمیں مواد پر پابندی لگانی چاہیے یا شعور اجاگر کرنا چاہیے؟
ویب سیریز کے اثرات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب نے کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اب نہ صرف نوجوان دیکھتے ہیں، بلکہ ویڈیوز بنا کر اسی طرزِ کی گفتگو، لباس اور انداز کو عام بھی کرتے ہیں۔
ارطغرل کی کامیابی کے بعد، پاکستانی نوجوانوں میں اسلامی تاریخ میں دلچسپی پیدا ہوئی، مگر اس کے ساتھ ہی چند گروہوں نے اسے بھی "ریڈیکلائزیشن" کا آلہ بنا کر استعمال کیا۔ یعنی، کوئی بھی مواد مکمل طور پر مثبت یا منفی نہیں ہوتا، اس کا اثر اس کے استعمال پر ہوتا ہے۔
صرف تنقید یا پابندی کی بات کرنے کے بجائے معاشرے میں میڈیا لٹریسی کو فروغ دیا جائے۔ نوجوانوں کو سکھایا جائے کہ فکشن اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔ والدین، اساتذہ اور علماء کو چاہیے کہ نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ کریں، نہ کہ صرف ڈانٹ ڈپٹ۔ مقامی فلم سازوں اور ڈراما نویسوں کو چاہیے کہ وہ تخلیقی انداز میں ہماری روایات، مسائل اور خوبصورتی کو پیش کریں تاکہ نوجوان عالمی مواد کے ساتھ ساتھ مقامی کہانیوں سے بھی جڑے رہیں۔ جیسے ضیاء الحق کی ااسلامائزیشن سے پہلے ہمارا سینما کام کر رہا تھا۔
ویب سیریز، نیٹ فلکس یا او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو مکمل طور پر شیطانی قرار دینا دانشمندی نہیں۔ یہ پلیٹ فارمز ایک طاقتور ذریعہ ہیں جو ہماری سوچ، زبان اور زندگی کے انداز پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ان سے کیا لینا چاہتے ہیں آزادی یا بے راہ روی، علم یا بے حسی؟ تبدیلی ضروری ہے، مگر ایسی تبدیلی جو ہماری بنیادوں کو کمزور نہ کرے، بلکہ انہیں مزید مضبوط بنائے۔
آخر میں نوجوان جو ان سیریز کو بارہا دیکھ کر مغربی تہذیب متاثر ہو رہے ہیں ان کیلئے علامہ اقبال کا یہ شعر
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا

