Rudad e Dil Kharash e Barzakh (1)
رودادِ دل خراشِ برزخ (1)
یا اللہ! یہ ہر طرف پانی کیوں ہے؟
سحر اٹھو۔ گیتی اٹھو نا۔ ماں کو کیا ہوا ہے؟
یہ لوگ جواب کیوں نہیں دے رہیں؟
ایسی بھی بدمست نیند کوئی سوتا ہے بھلا؟
اتنے لوگ گھر میں جمع ہو گئے ہیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں اور یہ لڑکیاں کیوں میرا بک شلف اور سی ڈی ریک چھانٹ رہی ہیں۔ ان کو کس نے اجازت دی ہے میرے کمرے میں دندناتے پھرنے کی؟ یہ ماں کہاں چلی گئی ہے آج؟ سارا گھر الٹا پڑا ہے۔ ارے! ہے یو! ہاں تم بلیک کپڑوں والی، میری سی ڈی واپس رکھو ریک پر۔ کمال ہے ڈھیٹ کتنی ہے سن بھی نہیں رہی ہے۔ اف شکر! سب لوگ گئے۔ مگر گھر میں اتنی ویرانی اور اداسی کیوں؟
یہ ڈیڈ، مم اور بھائی کیوں اسٹڈی میں بند بیٹھے ہیں۔ ماں کی تو آج پکی پکی شامت ہے۔ مم اسٹڈی سے نکلیں گی اور گھر کی ابتری دیکھ کر ان کا پارہ ساتویں آسمان کی خبر لائے گا۔ اچھا ہے ماں بھی مم سے سنے، بھلا کیا ضرورت تھی ماں کو مم کو واحد کے متعلق بتانے کی؟ خوامخواہ کی ڈیڑھ ہشیاری۔ مجھ سے تو وعدہ کیا تھا کہ کسی کو بھنک بھی لگنے نہیں دے گی واحد والے معاملے کی۔
کیا مصیبت ہے اب کون آ گیا؟
لوگوں کو چین کیوں نہیں، بھئ اپنے گھر بیٹھو سکون سے۔
اوہ! پولیس! تو آخر پولیس آ ہی گئی۔
مم کو اتنی آوازیں دیں، مم سن ہی نہیں رہیں، جانے کس سوچ میں گم ہیں۔ نہ سحر دیکھتی ہے نہ گیتی اور ماں بھی نہ جانے کہاں گم ہے؟
لو پولیس پھر آ گئ۔
"ہمیں افسوس ہے مسٹر شفیع آپ کو، طوبہ محمد یحییٰ اور حمید۔ آپ تینوں انڈر ارسٹ ہیں۔ "
ہاں! یہ تو ہونا ہی تھا۔ آپ کا فول پروف پلان ناکام رہا ڈیڈ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میں بہت جھول تھا۔ ڈرامہ تو آپ لوگوں نے خوب رچایا پر پکڑائی میں آ ہی گئے۔ اس کو کہتے ہیں آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔ اب تو مجھ سے کچھ بھی چھپا نہیں۔ جب تک مٹی کا جسم تھا روک تھی، پردہ تھا۔ جسم سے مکتی ملتے ہی سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ کل اور آج سب میرے سامنے ہے۔
ارے، رکو رکو! ان تینوں چھوٹوں کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ اوہ! یہ تو Youth protection service والے ہیں۔ یہ میری دونوں بہنوں اور بھائی کو لے کر جا رہے ہیں اور پولیس نے ہمارا محل سیل کر دیا ہے۔ میں اکیلے پورے گھر میں اڑتی پھر رہی ہوں۔ ڈیڈ اور مم نے اپنے ہی ہاتھوں سے، اتنی محنتوں سے بنایا گیا ایمپائر تباہ کر دیا۔ میں بہت تھک گئی ہوں اب اپنے کمرے میں کچھ دیر آرام کروں گی۔ اف! اتنا بڑا محل اور مکین کوئی بھی نہیں۔
اپنے گھر کے ہوتے ہوئے بھی میرے چھوٹے بہن بھائی اب در در بھٹکیں گے، ہائے کیسی بے بسی ہے؟ یہ کیا کیا آپ نے ڈیڈ، یہ کیا کر دیا؟ جرم ہم دو کا تھا اور سزا ان پانچوں کو بھی مل رہی ہے۔ میں یعنی زینب شفیع نے چاہا کہ کچھ دیر کو ہی سہی آرام کر لوں مگر اب نہ چین ہے اور نہ آرام۔ آپ کو یہ کہانی ڈیڈ کے بچپن سے سناتی ہوں۔
ڈیڈ کابل میں پیدا ہوئے، یہ جب دو سال کے تھے تو دادا چل بسے۔ ڈیڈ اور دادی نے بڑے عسرت بھرے دن گزارے۔ ڈیڈ کبھی اسکول گئے کبھی نہیں۔ کبھی پیٹ کو روٹی میسر ہوتی تو کبھی فاقہ کاٹتے۔ اسی طرح گرتے پڑتے، روتے ریگٹتے کسی طرح ڈیڈ نے ساتویں کلاس پاس کر لی پھر پڑھائی کو خیر باد کہ کر ہر طرح کی مزدوری کی۔ بوجھ بھی ڈھویا، پنکچر بھی لگایا، برتن بھی دھوئے اور بیرا گیری بھی کی۔ پھر ڈیڈ ٹیپ رکاڈر ٹھیک کرنے لگے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو ذہن اور لگن جی کھول کر عطا کی تھی۔ ان میں مستقل مزاجی بلا کی تھی۔ کابل میں بالآخر ایک چھوٹی سی دکان کھولنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں ٹیپ ریکارڈ درست کرتے اور ساتھ ہی ساتھ پیناسونک کا ٹیپ ریکارڈر بھی جاپان سے درآمد کرتے۔ بس پھر اللہ نوازتا ہی چلا گیا۔ پچیس سال کی عمر میں 1975 میں ایک سلف میڈ کامیاب تاجر تھے۔ دادی نے بہت ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک ریٹائرڈ کرنل کی سولہ سالہ خوبصورت بیٹی رونا سے بیاہ دیا۔
دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پر نازاں و فرحاں تھے۔ دن عید تو رات شبِ برات۔ پر یہ کیف بھرا سفر بے اولادی کے دکھ کے سبب جلد ہی رونا کے لئے دشت پر خار بن گیا۔ شادی کو دس سال بیت گئے، اولاد سے محرومی نے رونا کی زندگی کو سنار کی کٹھالی بنا دی۔ مارکیٹ اور برادری میں ملنے والے بے اولادی کے ہر طعنے کا بدلہ ڈیڈ رونا کو تھپڑ اور جھڑکی کی صورت میں چکاتے۔
شفیع اب مہربان محبوب نہیں بلکہ شقی القلب اور مطلق العنان مجازی خدا بن چکے تھے، جو رونا کو سانس کی اجازت بھی بمقدار ضرورت عطا کرتے تھے۔ رونا دن بد دن خاموش ہوتی چلی گئی، اس پر پابندیاں بڑھتی گئی، یہاں تک کہ میکے سے ہر رابطہ منقطع کر دیا گیا۔ نہ میکے سے کوئی آ سکتا تھا نہ رونا بابل کی دہلیز پار کر سکتی تھی۔ ڈیڈ نے اولاد کے لئے کوئی در دروازہ نہیں چھوڑا، رونا کو لیکر علاج کے لیے انڈیا بھی گئے مگر کہیں سے بھی گوہر مراد کی نوید نہ ملی۔
اب ڈیڈ اور دادی نے سنجیدگی سے دوسری شادی پر غور کرنا شروع کر دیا۔ رونا کے سر پر سوکن کی جو تلوار لٹکی تھی وہ بالآخر اپنا وار کر گئی اور 1989 کو شفیع نے اپنے دوست عزیز کی سترہ سالہ سالی طوبہ محمد سے شادی رچا لی۔ افغانستان میں روس کے حملے کی وجہ سے ان دنوں حالات کافی ابتر تھے سو ڈیڈ نے اپنے خاندان (دونوں بیویوں اور دو بچوں، حمید اور زینب) کے ساتھ انیس سو بانوے میں افغانستان کو خیرباد کہا اور پاکستان میں پڑاؤ جمایا۔
پاکستان میں تقریباً پانچ چھ برس قیام پزیر رہنے کے بعد دوبئ میں قسمت آزمائی کی اور وہاں اللہ تعالیٰ نے دھن کی برکھا برسا دی۔ ٹیپ ریکارڈر کی امپورٹ سے اب گاڑی کے شو روم اور پھر شو روم سے realtor تک کا سفر سرعت سے طے کر لیا۔ اللہ نے دولت بھی دی اور اولاد سے بھی نوازا۔ پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے۔ سب دوبئی میں امریکن اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس عرصے میں طوبہ، رونا کو دیوار سے لگا چکی تھی۔
رونا کی حیثیت صرف ایک آیا کی تھی۔ حمید، زینب اور پھر سحر۔ سحر کی پیدائش پر طوبہ نے سحر کو رونا کی گود میں ڈال دیا اور بدلے میں رونا سے اس کی واحد خوشی، ہفتے کی اکلوتی رات جو وہ شفیع کے ساتھ بتاتی تھی اس سے بھی رونا کو محروم کر دیا۔ رونا اب باکل تہی دست و تنہا تھی۔ اب یہ قدرت کی ستم ظریفی تھی یا مہربانی کہ بانجھ رونا ممتا کے جزبے سے سرشار تھی۔
اس نے ان ساتوں بچوں کو بالکل اپنی سگی اولاد کی طرح پالا گو کہ بڑے ہوتے ہوئے بچوں نے اپنے ماں باپ کی دیکھا دیکھی رونا کو کبھی مان سمان نہیں دیا مگر رونا ہر بچے کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے رہی۔ اس برہن کی واحد خوشی ان بچوں کی سیوا تھی۔ وہ جزباتی طور پر دو ڈھڑوں میں بٹ گئی تھی۔ بچوں کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتی تھی اور شفیع کے ساتھ رہ کر بیراگی زندگی سے بھی اوبھ گئی تھی۔ وہ حبس بے جا اور بے اجرت کی مزدوری سے تھک چکی تھی۔
طوبہ اس پر پوری طرح حاوی تھی اور اس کا کسی سے بھی رابطہ نہ ہونے دیتی تھی۔ طوبہ برملا کہتی تھی کہ تم میری غلام ہو۔ اس اثناء میں ڈیڈ اب مستقل ٹھکانے کی تلاش میں تھے کہ کابل ان کے لئے شجرہ ممنوعہ تھا، پھر ان کی قسمت نے یاوری کی اور کینیڈا کا امیگریشن پروگرام جس میں آپ کثیر سرمایہ کاری کر کے ریزیڈنٹ شپ خریدتے ہیں، نے ان کی مستقل رہائش کا مسئلہ حل کر دیا۔
اس میں صرف ایک ہیچ تھی کہ آپ دو بیویاں ظاہر نہیں کر سکتے تھے، ایجنٹ نے اس کا حل بھی نکال لیا تھا، اس طرح ڈیڈ، مم اور ہم ساتوں بچے 2007 میں منٹریال اترے۔ یہاں ڈید نے دو ملین میں ایک اسٹرپ مال خریدا اور منٹریال کے سبرب میں ایک مینشن کی تعمیر شروع کروا دی۔ سب بچے اسکول جانے لگے۔ ڈیڈ کا کاروبار دوبئی میں سیٹ تھا۔ چھ ماہ بعد رونا بھی منٹریال پہنچ گئی، ایک ملازم کی حیثیت سے(nanny) کے ویزے پر۔
ڈیڈ کا وقت دوبئی میں زیادہ اور منٹریال میں بہت کم گزرتا۔ ڈیڈ کی غیر موجودگی میں ڈیڈ کا کراؤن پرنس حمید گھر کا کرتا دھرتا ہوتا۔ وہ ڈیڈ کی آنکھیں اور کان تھا اور ہم بہنوں پر بے دریغ اپنے ہاتھ آزماتا تھا۔ ذرا ذرا سی شکایت برق رفتاری سے دوبئی پہنچ جاتی اور پھر پاکٹ منی کی کٹوتی اور کبھی کبھی گراؤنڈیڈ ہونے کی سزا مقدر ہوتی۔