Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. Munni Nahi Manti (1)

Munni Nahi Manti (1)

مُنّی نہیں مانتی (1)

اللہ کسی کو اولادوں کی قطار میں بیچ کی اولاد نہ بنائے، انہیں نہ تو بڑی اولاد جیسا مان سمان ملتا ہے اور نہ ہی چھوٹوں جیسا لاڈ دلار۔

بس ذمہ داریوں کی جکڑ بندیاں ہی نصیب ہوتی ہیں۔ اللہ کی کرنی کہ ہم سات بھائی بہن اور میں دکھیاری اوپر سے گنو تو چوتھی، نیچے سے شمار کرو تو بھی کسی قطار میں نہیں۔ عمر گزری بڑے تین کی جی حضوری کرتے اور چھوٹے تین، اللہ کی پناہ! گویا "بے قصور کے قصوری"۔

ابا ٹھہرے ذاتی ملازم سو درد سری زیادہ اور آمدن ماندہ، گورنمنٹ کی نوکری کی عیاشی تو تھی نہیں کہ ایک بار نوکری لگ گئی تو لگی ہی رہی اور بات اب ریٹائرمنٹ پر ہی منتج ہوگی۔ پرائیویٹ نوکری کے جوکھم ہزار۔ ابا اللہ رکھے کثیر العیال اور مزید تکلیف دہ بات کہ بیوی درد شقیقہ کی مریض بھی۔ گنجان آبادی میں دوسرے مالے پہ تین کمروں کا کابک نما فلیٹ، وہ بھی مشرقی رخ پر حبس ذدہ، گھٹا ہوا تاریک فلیٹ کہ ارد گرد بلند و بالا نئی نئی لشکتی عمارتوں نے اس کہنہ چار منزلہ بلڈنگ کا جیسے گھیراؤ کیا ہوا تھا۔

فقط ایک شکستہ سی بالکونی جہاں سے بالشت بھر آسمان دیکھنا ممکن مگر وہاں بھی ڈوپٹہ کی بکل مار کے تبھی جانے کی گنجائش، جب سبزی والے کی سماع خراش آواز گلی کے نکڑ سے بلند ہو۔ گنجان پتلی گلی طرح طرح کی دکانوں سے چھلکی پڑتی تھیں اور بالکونی میں قدم رکھتے ہی اطراف سے آنکھیں ہی آنکھیں اُگ آتیں۔

میرا بیشتر وقت باورچی خانے میں گزرتا اور باورچی خانہ تاریک تو تھا اب چکٹاہا بھی ہو چکا تھا کہ صفائی کا وقت ناپید۔ ناشتے کی تیاری سے جو میں باورچی خانے کو پیاری ہوتی تو اللہ جھوٹ نہ بلوائے کہیں رات کے کھانے کے بعد ہی خلاصی نصیب ہوتی۔ بیچ میں کالج کا رولا بھی تھا، شکرکے گورمنٹ کالج دور نہ تھا اور میں پیدل ہی آتی جاتی۔ بارہ بجے بھاگم بھاگ گھر پہنچتی اور پھر صبح کے برتن، مختصر سے فلیٹ کی صفائی جو عین صفائی کے وقت جانے کیسے اپنا حدود اربعہ بڑھا لیا کرتا تھا اور بکھرا گھر میدان کار زار کا سماں پیش کرتا۔ پھر تیزی سے دن کے کھانے کی تیاری کہ تین چھوٹے اسکول سے طبل جنگ بجاتے ہوئے وارد ہوتے۔

کہنے کو تو گھر میں آپا بھی تھیں، مگر صرف کہنے کی حد تک۔ سب سے بڑے احسن بھیا، ارجمند آپا، مدثر بھائی پھر ناچیز یعنی تابندہ عرف منی اور پھر قافیہ سے قافیہ ملاتے ہوئے کفیل، شکیل اور عدیل۔ آپا ٹھہریں حسین عالم، چاندی میں ڈھلی اور نازوں میں پلی، سو نخرے ان پر سجتے تھے۔ اماں کی ممتا شروع کے دونوں بچوں پر خوب شوریدہ سر رہی پر مجھ تک آتے آتے اس کے سوتے خشک ہو چکے تھے۔ میرے بعد کے تینوں چلڑوں کو محبت بطور تبرک ہی سہی پر ملی ضرور کہ خیر سے سپوت جو ٹھہرے۔ رہی میں، تو فاضل کندہ تھی سو گرہستی کے بھاڑ میں جھونک دی گئ۔

بھیا یونیورسٹی میں تھے اور نہایت دھماکے دار ڈیبیٹر، اکثر اوقات گھر بھی پوڈیم ہی تصور کیا جاتا۔ بجو پہ آج کل لکھنے کا شوق سوار تھا لہزا وہ کالج سے آنے کے بعد اپنی مخروطی انگلیوں میں قلم تھامے خلا میں تکتی اپنے افسانوی کرداروں کو پکڑ پکڑ کر گھیرتی رہتی۔ اماں کو ازلی کمزوری، وہ کشتے اور معجون کے ساتھ پان سے تو شغل کرتی ہی تھیں مگر گھڑی گھڑی مبتلاء چیاس بھی رہتیں، اس لیے ایک چولھا تو صرف ان کی چائے کی کیتلی کے لیے ہی مختص رہتا۔ مدثر بھائی کی بھی قسمت نے یاوری کی اور اب انہیں ریڈیو کراچی کے ڈراموں میں ہلکے پھلکے کردار ملنے لگے تھے۔

میں بیچ کی کیا ہوئی کہ ماٹھی ہی رہ گئ۔ عقل میں سب بھائیوں اور بہن سے کمتر، مجھ میں تیزی و عیاری نہ تھی پر ذہن اچھا تھا۔ کالج میں صرف کلاس کے دوران ہی جو پڑھتی تھی سو پڑھتی بھلا گھر میں کہاں فرصت نصیب جو کتابیں کھولتی مگر پھر بھی انٹر بغیر سپلی کے پاس کر لیا۔ مجھ سے چھوٹی چلڑ پارٹی بھی پڑھائی اور کھیل کے میدان میں نمایاں تھی۔ دراصل میرا کنبہ بہت ٹیلنٹیڈ تھا اور ہر کوئی کسی نہ کسی ہنر میں یکتا، بروغ گردن راوی شنید ہے کہ کبھی ابا جان بھی سخن کے قرینے سے ایسے آراستہ تھے کہ ان کی موجودگی میں محفل کشت زعفران رہتی۔

ابا جان بڑی ہی شاندار شخصیت رکھتے تھے، خوش وضع اور صاحب جمال۔ اماں بھی بھلے وقتوں میں شاعری کیا کرتی تھیں مگر یہ سب میرے بچپنے کے قصے تھے کہ اب ابا جان قدرے تنک مزاج اور اماں چڑچڑی تھیں۔ اس ہنر مند گھرانے میں واحد میں ہی تھی جو ٹیلنٹڈ نہ تھی۔ مجھے فقط کھانا پکانا آتا تھا اور یہ کوئی ایسی قابل ذکر و قدر خوبی نہ تھی کہ یہ تو ازل سے حوا کی بیٹیاں کرتی آ رہی ہیں۔ شاید کھانا پکانا ضرورت تھا ٹیلنٹ نہیں، گو کہ میری ضرورت سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں تینوں وقت ہوتی جو ضرب دیجیے تو سال میں 1095 بار مگر میری پزیرائی عید تو چھوڑیے صفر کے چاند جتنی بھی نہیں تھی۔

ایک شام میں نے بھیا کو چائے کی کپ پکڑاتے ہوئے پوچھا تھا کہ بھیا یہ آپا کیسے کرداروں کو گھڑ لیتی ہے؟ بھیا نے جھٹ اپنی فائل میں سے ایک تصویر نکال کر مجھے دکھائی اور پوچھا کہ بتاؤ اس تصویر میں کیا ہو رہا ہے؟

تصویر میں دو قیدیوں کو پینٹنگ کرتے دیکھایا گیا تھا، ایک قیدی نے قید خانے کی سلاخیں پینٹ کی تھی اور دوسرے نے ٹوٹی ہوئی دیوار اور شفاف آسمان میں اڑتے پرندے۔ پوچھا کہ تمہیں کہ کون سا قیدی صحیح لگ رہا ہے؟

میں نے کہا جس نے سلاخیں پینٹ کیں ہیں۔

بھیا خوب ہنسے اور کہا بس یہی فرق ہے ارجمند اور تم میں منی۔

لو یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ تصور کرنے سے بھلا حقیقتں تھوڑی بدلا کرتی ہیں۔ ایک تو مجھے اپنے اس پکارو نام "منی" سے ازلی بیر تھا، پر جیسے سنو مُنّی مُنّی، کی رٹ لگائے رکھتا اور میرا جی جل کے خاک ہو جاتا۔

آپا کی شادی کے بعد میرا کالج جانا بند ہوگیا کہ اماں کا درد شقیقہ بڑھتا گیا۔ آپا سدا کی قسمت کی دھنی کہ میاں ملا تو والا و شیدا اور سسرال بھی پہلا تحفہ اولاد نرینہ کی صورت پا کر نہال۔ کچھ لوگوں کی قسمت واقعی اللہ تعالیٰ سونے کے قلم سے لکھتے ہیں۔ اب تو آپا کی نگارشات ڈائجسٹوں میں چھپنے لگی تھیں اور وہ مستند قلم کار گنی جاتیں۔

اس بیچ مدثر بھائی کو باہر کا چانس مل گیا اور وہ مقسط سدھارے۔ احسن بھیا معاشیات میں ماسٹرز کرکے محکمہ شماریات میں لگے اور اماں کو ان کے سر پر سہرا سجانے کی ہڑک اٹھی اور قرعہ فال نکلا ہماری پھوپھی زاد دل آرام کے نام، جو صرف اور صرف بھیا کے دل کا آرام ثابت ہوئیں اور باقی گھر والوں کے لیے محض نام۔

زندگی چلتی رہی پر میرے نصیب کی گرہن باقی تھی کہ دور دور تک کوئی بھی میرا سوالی نہ تھا۔ میں جانے کیسی بیری تھی جس پر کوئی پتھر ہی نہ آتا تھا حالانکہ میں کئیوں سے بہتر کہ اچھا ناک نقشہ اور گورا چمکتا رنگ، ہاں میرا قد ضرور کم تھا جیسے میں اپنی تسلی کے لیے بوٹا کہ لیتی، پر بابرہ شریف کون سی سرو قد تھی؟

وہ تو زمانے تک ناظرین کے دلوں کی دھڑکن رہی۔ طبیعت میری خاصی ہنسوڑ کہ میں بات نہ دل پر لیتی اور نہ ہی دل میں رکھتی۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میں شارپ اور چرب زبان نہیں تھی۔ رویوں کو سمجھتی ضرور تھی مگر مخمل میں جوتا لپیٹ کر مارنے کے فن سے نا بلد تھی۔ میری دوسری نادانی کہ لیجیے کہ مروجہ فیشن کے مقابلے میں کمفرٹ کو ترجیح دیتی اسی لیے نہ کبھی پنسل ہیل پہنی اور نہ بلاک۔ گفتگو بھی سادی سودی ہوتی، لچھے دار نہیں اور میں طرح دار تو بالکل بھی نہیں، ہاں مگر رچ کے ذمہ دار ضرور تھی۔

اماں کی گرتی صحت، انہیں میری شادی کے لیے مزید ہلکان کر رہی تھی۔ پھر قسمت نے یاوری کی اور مستنصر کا رشتہ آیا جو اماں ابا کو مناسب لگا اور مستنصر کو چائے کی پیالی پکڑاتے ہوئے، میرے بھی دل کو بھی بھایا۔ مستنصر بالکل ابا ہی طرح وجہہ و شکیل اور قد آور تھے اور پی این ایس میں تازہ تازہ بحثیت فرسٹ انجینئر بھرتی ہوئے تھے۔ میں اس رشتے پر بہت بہت خوش تھی کہ مستنصر، ابا جیسے اور میں اماں سےخاصی مشابہ۔ اماں بہت خوب صورت اور کامنی سی تھیں، وہ خوشنما رنگین سوتی ساڑی پہنے، چوکی پر بیٹھی مسکراتی بہت سجتی اور ان کے واری صدقے جاتے ابا مجھے بہت بھاتے۔ ابا لحیم شحیم اور اماں نہایت مختصر مگر دونوں کی محبت بہت توانا تھی۔

Check Also

Pakistani Ghante Ki Qeemat

By Maaz Bin Mahmood