Thursday, 07 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Kaan

Kaan

کان

میں تقریباً ایک سال سے بے روزگار تھا مگر اچھے وقتوں میں خریدے گئے کپڑے اور جوتے، ابھی تک میرا بھرم بنائے ہوئے تھے۔ میں کبھی کسی علت میں مبتلا نہ رہا سو ان ابتر حالات میں بھی زندگی دشوار تر نہ ہوئی۔ اپارٹمنٹ کے ڈھنڈر پڑے کچن میں ماربل کے لشکتے آئی لینڈ پر ڈبل روٹی، چائے یا نان اور اچار میری خالی جیب کے پردہ پوش رہے۔ میری محبوبہ، میری چہیتی "دلکش"، میرے گاڑھے خون پسینے سے کمائی گئی میری عزیزی گاڑی لبِ سڑک اوس میں بھیگتی اور دھوپ میں جھلستی رہی۔ بینک میں تیزی سے گھٹتا سرمایہ مجھے "دلکش" کی متوقع جدائی سے ہراساں کر رہا تھا کہ میری چالیس سالہ زندگی میں یہی واحد مونث کا صیغہ رہی ہے۔

میرا دل دھڑکتا تو دلشاد کے نام پر تھا مگر نہ وہ میری تھی اور نہ ہی میرے لیے تھی۔ وہ حسن کی کل میراث سمیٹے چودھری نثار کی منگ تھی۔ "وہ"، وہ تھی جس پر کئی رانجھے دم ہارے بیٹھے تھے پر منہ سے بھانپ نکالے بغیر جی ہی جی میں گھٹ رہے تھے۔ اس ہیرے کی کنی کی جھلک سے خیرہ ہونے کے بعد گویا بصارت ہی جواب دے گئی اور ہر روپ پھیکا اور گہنایا ہی سا لگا۔

میں بڑے سے پنجاب کے چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں کا باسی ایاز رفیق ہوں۔ وہی یازو جیسے پڑھائی کا خبط ملتان لے آیا۔ آگے اور آگے ہی بڑھنے کا جنون، مجھے ملتان سے لاہور اور بالآخر نیویارک پہنچا کر ہی دم لیا۔ بہت سارے دھنک رنگ خواب لیے میں 2008 میں جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پہ اترا۔ میری پاس ریزگاری قلیل پر قرضوں کی فہرست طویل تر تھی۔ مجھے فل اسکالرشپ نہیں ملی تھی۔ ابے نے جانے کس کس سے قرضہ پکڑ کر، سو سو جتن سے میری ٹکٹ کا انتظام کیا تھا سو اب میرا دل و دماغ ہر سوچ سے مبرا محض قرضوں کا بہی کھاتہ بن کر رہ گیا تھا۔ پیچھے گاؤں میں میرا بڑا سارا ٹبر اور میرے آگے لیے گئے قرضوں کا انبار اور ساتھ ہی گھر والوں کی جا و بےجا خواہشات میرے وجود سے آکاس بیل کی طرح لپٹی ہوئی تھی۔ میں نے رہٹ میں جتے بیل کی طرح آنکھوں پہ کھوپے چڑھائے مشقت کے دائرے میں گھومتے گھومتے اپنا آپ مٹی کر لیا۔ ڈبل شفٹ کی مشقت نے مجھے نیویارک کی کھوج و دید سے محروم ہی رکھا اور میں یہاں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہ تھا۔

گزرتے چھ آٹھ سالوں میں، میں نے اتنا ضرور جوڑ لیا کہ تینوں بہنوں کو بھاری جہیز سمیت عزت سے رخصت کیا جا سکا۔ ساتھ ہی قرضوں کی فصل مع سود کاٹ کر ابے کو تمام جکڑ بندیوں سے آزاد کرکے میں نے سکھ کی سانس بھری۔

مشکل یہ تھی کہ میں اتنے سالوں بعد بھی گاؤں کا وہی جھنپو یازو ہی تھا سو میری تنہائی ٹائم اسکوائر، بروکلن برج اور سنٹرل پارک میں دوسرا ہٹ کی آرزو میں خوار ہوتی رہی۔ میری کالی بھونرا آنکھوں نے کچھ گوریوں کو میری جانب ملتفت بھی کیا مگر میں معاشقے کی ابتدائی منزل پر ہی پلٹ آتا، شاید میں اکیلا رہتے رہتے اتنا اکیلا ہو چکا تھا کہ دوئی اور شراکت مجھے خوفزدہ کرتی تھیں۔

اماں، ابا کے گزرنے پر وطن گیا اور مٹی کی امانت مٹی کے سپرد کرکے پھر بن باس کاٹنے لوٹ آیا۔ ان دونوں کے جانے کے بعد وطن لوٹنے کی ہمت اور چاہ دونوں ہی نہ رہی، وجہ میری تینوں بہنوں کا غدر تھا۔ وہ تینوں اپنی اپنی سسرال میں اپنا نمبر بنانے کے غرض سے مجھے وہیں کہیں کھپانے کی سر توڑ کوششوں میں آپس میں کھپ ڈالے بیٹھی تھیں سو میں نے بھی بلی کا بکرا بننے کے بجائے ATM کارڈ رہنا ہی مناسب جانا۔

2023 میرے لیے بڑا سخت رہا کہ ڈاؤن سائزنگ کی پھیر میں آیا اور ایسا آیا کہ مجھے بے روزگار ہوئے سال سے اوپر ہو چلا ہے۔ میں اب سنجیدگی سے کوئی بھی اوڈ جاب قبول کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ یہ اچھوتا خیال میرے ذہن میں آیا اور میں رسک لینے پر کمر بستہ ہوا۔ ویسے بھی داؤ لگانے کو یا ہارنے کو میرے پاس کچھ بچا ہی کب تھا۔ میرا خود کو دیا گیا یہ آخری چانس تھا، آر یا پار ورنہ اسٹار بک یا سیون ایلیون میں روزگار کے مواقع تو تھے ہی۔ میں نے نئے سرے سے اپنا لیونگ روم ٹھیک کیا، اسے مزید پودوں اور چھوٹے سے مصنوعی آبی چشمے سے مزین کرکے پر سکون گوشے میں ڈھال دیا۔ یہی گوشہ اب میری آفس تھی، میرا متوقع روزگار۔ میں نے فلم انجمن کا معروف گانا

زخمِ دل کی دوا خریدیں گے

گیسوؤں کی گھٹا خریدیں گے

آپ فرمائیں کیا خریدیں گے!

گنگناتے ہوئے نیٹ ورکنگ کے ذریعے اپنے کام کی تشہیر شروع کر دی۔ ایک ہفتے تک سوائے معمولی انکوائری کے اور کچھ نہ ہوا۔ کسی نے دفتر میں جھانکا بھی تو محض ابتدائی معلومات کی حد تک ہی۔ دسویں دن سہ پہر ڈھلے بارش کے پہلے قطرے کی مانند ایک ضعیف خاتون، مارتھا تشریف لائیں۔ وہ متواتر چار پانچ روز تک آتی رہیں، ظاہر ہے ستر سالوں کی داستانِ الم تھی کوئی پل دو پل کی بات نہیں۔ میں نے اپنی کلائنٹ کی تواضع گرما گرم کافی اور خستہ بسکٹ سے کی اور اسے ایک معقول معاوضے کے عوض اپنا کان و کندھا دان کیا کہ میں دکھوں کا سوداگر ہوں اور گوش بر آواز۔ اب میرا کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے کہ میں اس بے حس اور کٹھور دنیا میں بنی آدم کے الم کو سنتا ہوں اور ان کے لیے اپنا کان و کندھا فراہم کرتا ہوں۔

Check Also

Pehle Murgi Ya Pehle Anda

By Rauf Klasra