Airhi Ka Kanta
ایڑی کا کانٹا
ہائے دادا جی، ہائے دادا جی۔ ایک مسلسل صدا جیسے کوئی میرے ذہن پر دستک دے رہا ہو۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔ پورچ میں پڑے روکر پر بیٹھے بیٹھے جانے کب آنکھ لگ گئی تھی۔ نہیں نہیں یہ کوئی خواب نہیں بلکہ میرے پوتے ارمغان کی حقیقی آہ و بکا تھی۔ میں ننگے پاؤں ہی بھاگتا ہوا لاؤنج میں داخل ہوا جہاں میری چھوٹی بہو اپنے بیٹے کے پیر کی ڈرسنگ کر رہی تھی۔
کیا ہوا؟ کیا ہوا ارمغان کو؟
" کچھ نہیں ابا جی باغیچے میں کھیلتے ہوئے کانٹا چبھ گیا ہے ایڑی میں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں ارمغان زیرہ کا ظہورا کرنے میں ماہر ہے"۔
بہونے خفگی سے کہا اور ساتھ ہی ارمغان کو تنبیہ کی کہ تمہیں سو بار ننگے پاؤں کھیلنے سے منع ہے پھر کیوں ننگے پیر کھیل رہے تھے۔
امی مجھے پیروں میں گھاس کی گدگدی پسند ہے۔
چھ سالہ ارمغان نے سسکی لیتے ہوئے جواب دیا۔
ہائے ارمغان کا جواب گویا
ایک تیر جگر پہ مارا
میں لنگڑاتے ہوئے ارمغان کو اپنے کمرے میں لے آیا۔
میرا نام سید امان اللہ ہے اور میں فلوریڈا میں ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہا ہوں۔ لمبی زندگی کاٹی ہے اور ثمر کہہ لو یا کمائی، یہی تین بچے میری کائنات ہیں۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ رب تعالیٰ کی مہربانی سے میرے پاس اتنی پونجی ضرور تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد میں اکیلے گھر میں ٹھاٹ سے رہ سکتا اور جب تک صولت جہاں حیات تھیں، رہا بھی۔ بچے آتے جاتے رہتے تھے، گھر میں رونق میلا لگا رہتا تھا۔ دونوں بیٹے تو یہیں امریکہ میں ہیں مگر داماد چوں کہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے سو ان کی خبر گیری کو کراچی ہی میں رہتا بستا ہے۔ اب تو خیر باپ کا کل بزنس وہی سنبھال رہا ہے کہ بابے نے کھاٹ پکڑ لی ہے۔
میرا ذرا دل نہ تھا کہ انجو میری اکلوتی نور نظر اس لڑکے یعنی منصور سے شادی کرے مگر انجو دل سے ہاری اور میں نے انجو کے بہتے آنسوؤں کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے۔ منصور سعادت مند بچہ ہے۔ اس کی دلی خواہش امریکہ میں بسنے کی ہے مگر باپ کا مان رکھتے ہوئے کراچی میں رہ رہا ہے۔ خیر بچے جہاں رہیں خوش اور آباد رہیں، ان کی طرف سے ٹھنڈی ہوا اور خیر کی خبر آتی رہے۔ پر اس دل کا بھی تو اپنا ہی تقاضا ہے، ونجلی کی دکھیا تان کی طرح میرا دل بھی انجو انجو ہی کیے جاتا ہے۔ اب فاصلے اتنے معنی تو نہیں رکھتے کہ ہر روز ہی وڈیو چیٹ ہو جاتی ہے مگر انجو کو اپنے سامنے دیکھ کر جو تراوٹ آنکھوں کو اور اسے گلے لگا کر جو ٹھنڈک سینے کو ملتی وہ انمول ہے۔
ہادی اور ولید یہیں امریکہ میں رہتے ہیں۔ میں زیادہ تر ولید کے پاس فلوریڈا میں رہتا ہوں۔ وجہ دو ہیں۔ پہلی وجہ تو ارمغان ہے، ولید کا چھوٹا بیٹا، یہ میرا پسندیدہ پوتا ہے۔ یہ مجھے ہادی اور ولید سے بھی زیادہ عزیز اور دوسری وجہ فلوریڈا کا سمندر جو مجھے کاکسس بازار کے بپھرے سمندر کی یاد دلاتا ہے۔ میری جنموں بھومی میرا حسین و جمیل بنگال۔ اب جب میں کُل حیاتی کو انگلیوں پر شمار کرتا ہوں تو میں مشرقی پاکستان میں سب سے کم عرصہ رہا مگر کمال دیکھیے کہ میری یادداشت کا بڑا حصہ اسی مدتِ قلیل نے گھیرا ہوا ہے۔ آب و دانہ نے سدا میرے پیروں میں گرادب ہی باندھے، کہاں کہاں نہیں پھرایا مگر میرا یہ کمبخت دل جہاں ٹھہرا تھا وہیں ٹھہرا رہا۔ دل کی کیا کہوں یہ سب سے بڑا موحد۔
سات عشروں پر پھیلی طویل کہانی ہے۔ تنویر نقوی کیا خوب کہ گئے ہیں
کیسے یاد رکھوں کیسے بھول جاؤں
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
بس میری بھی رواد کچھ ایسی ہی ہے۔ مجھے وہ زندگی ملی جو میں نے جی کم اورگزاری زیادہ۔ کبھی زندگی جھیلی تو کبھی کاٹی، کبھی کبھی گھسیٹی بھی اور کبھی کبھار تو ظالم نے مجھے روند ہی دیا۔ اب آپ کو زیادہ کیا الجھاؤں، جہاں تک یادداشت سہارا دیتی ہے قصہء غم سنا دیتا ہوں۔
میری پیدائش اس خطے کی ہے جو جہان میں اپنی ہریالی اور حسن کے لیے ید طولیٰ رکھتا تھا۔ اب شاید بدل گیا ہو مگر میرے سپنوں میں اب بھی ویسے ہی سرسبز و شاداب آباد ہے۔ پتہ نہیں وہ دیس اپنے لاکھوں لوگوں کو کھو کر شاد ہے یا ناشاد مگر سچی بات کہ اس کے ہجر نے مجھے سدا کرلاتی کونج بنائے رکھا۔ ہاں میں اسی اجڑے دیار کی بات کر رہا ہوں جو کبھی میرا وطن، میرا بازو تھا، میرا "مشرقی پاکستان"۔ میری پیدائش سلہٹ کی تھی کہ ابا چائے بگان میں خزانچی تھے۔ مجھ سے بڑی تین بہنیں پھر میں اور پھر چھوٹی سلطانہ جو تا حیات منّی ہی کہلاتی رہی بلکہ وہ کبھی بڑی ہو ہی نہ سکی۔
اماں میرے تیترا ہونے سے دل ہی دل میں خائف تھیں۔
" تیترا " یعنی تین بیٹیوں کے بعد پیدا ہونے والا بیٹا، جس کے متعلق یہ گمان عام کہ یہ بچہ خود اپنے لیے تو بھاگوان ہوتا ہے پر گھر والوں کے لیے بھاگیّا شالی یعنی خوش قسمت نہیں ہوتا۔ ابا راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور اماں کے اس وہم سے سخت کبیدہ خاطر رہتے۔ اماں کے گمان کے برعکس میری پیدائش کے بعد ابا کو ڈھاکہ میں ٹیلی فون ایکسچینج میں اچھی نوکری مل گئی تھی۔ خیر ہماری زندگی بہت خوش باش گزر رہی تھی۔ سادگی کا دور تھا، دکھاوے اور چونچلے بازیوں سے کوسوں دور۔ بھائی چارے اور مروت لحاظ سے گندھا ہوا معاشرہ تھا۔ کسی کے پاس بھی زیادہ نہ ہوتا مگر مل بانٹ کر کھانے سے سب کے پیٹ بھرے اور نیت آسودہ رہتی۔
بڑی آپا اور چھوٹی آپا گریجویشن کا ارمان دل میں لیے انٹر کے بعد ہی سسرال سدھاریں بلکہ اس معاملے میں تو ابا کی پس و پیش بھی نہ چلی۔ بڑی آپا لال منیر ہاٹ جہاں نوشے بھائی ریلوے میں ٹی ٹی تھے اور چھوٹی باجی کھلنا بیاہی گئیں۔ کھلنا پیپر مل میں چھوٹے دولھا بھائی شفٹ انچارج تھے۔ اس زمانے میں بیشتر شادیاں خاندان ہی میں طے پا جاتی تھیں سو میری دونوں بہنیں بھی خاندان میں بیاہی گئیں۔ بڑی آپا، بڑی پھوپھی اماں کے گھر اور منجھلی آپا، کنجھلے ماموں کے گھر بیاہ کر گئیں۔ شادی خاندان ہی میں ہو ایسی کوئی بندش تو نہ تھی پر خاندان کو اولیت دی جاتی تھی۔ البتہ ہمارے گھرانے میں سید ہونا شرطِ اولین تھی کہ اماں ابا دونوں نجیب الطرفین سید تھے۔
چھوٹی عید دونوں بہنیں میکے میں کرتی تھیں اور بقرعید اپنے اپنے سسرال میں۔ بقرعید پر میری خوب دوڑ لگتی تھی، دونوں بہنوں، بہنوئیوں اور بھانجے بھانجی کی عیدی پہنچانے کے سلسلے میں۔ اماں ہماری بڑی روایتی اور ابا روایت شکن، پر اکثر اماں ہی فاتح رہتیں۔ ہمارے گھر سارے تیج تہوار دھوم دھام سے منائے جانے کا رواج تھا۔ شبرات، کونڈے، ربیع الاول اور محرم پورے پروٹوکول سے منائے جاتے گو ابا حلوے مانڈے کے سخت خلاف تھے۔ ابا کونڈے اور شب برات کے حلوے پر فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔ نا چار میں ہی اماں کی پکڑائی میں آتا اور اماں عصر سے قبل ہی مجھے نہانے کی تاکید کرتیں۔ اس دن کے لیے اماں میرا نیا نکور کرتا جس پر وہ خود یا بڑی آپا کشیدہ کاری کرتی تھیں اور لٹھے کا خالتہ پائجامہ تیار کیا جاتا۔ صحن میں بچھی چوکی پر مٹی کے کورے کونڈو میں سجا بھرا پُرا خوان، رنگا رنگ ستر پوش سے ڈھکا ہوا، اگر بتی کی سر پر چڑھتی تیز خوشبو اور مرغولے بناتے دھوئیں کے درمیان بیٹھ کر میں نہایت اہتمام و عقیدت سے فاتحہ دیتا۔ ابا اس دن شام کی چائے گھر پر نہیں پیتے تھے۔ میری پتی ورتا اماں کی کُل حیاتی میں اپنے مجازی خدا کے خلاف یہ واحد سالانہ بغاوت ہوتی تھی۔
سنہ انہتر کی بات ہے کہ ہم لوگ نواب پور سے محمد پور منتقل ہو گئے جہاں قائداعظم روڈ پر ابا نے بڑے چاؤ سے مکان بنوایا تھا۔ قائداعظم روڈ کی بڑی ٹنکی کے قریب ہمارا خوب صورت کالے گیٹ والا گھر تھا۔ اس گھر کی اطلاعی سریلی گھنٹی میں خود بازار سے گھنٹوں کی چھان پھٹک کے بعد منتخب کرکے لایا تھا۔ پورے محلے میں ویسی انوکھی سریلی گھنٹی کسی کے دروازے پر نہ تھی۔ یہ ویسی ہی بجتی تھی جیسی انگریزی فلموں کے گھروں کی گھنٹیاں بجا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں ویسے بھی گھنٹیوں کا رواج کم ہی کم تھا، بس اجازت کے لیے کنڈا کھڑکا دیا جاتا یا پھر گھر کے دروازے پر دستک کے ساتھ ہی گھر کے چھوٹے بچوں کا نام پکارا جاتا۔
قائد اعظم روڈ آ کر میں یوں بھی زیادہ خوش تھا کہ میرے دیرینہ دوست اقبال کا گھر بہت قریب ہوگیا تھا۔ اقبال نور جہاں روڈ پر رہتا تھا۔ نوٹریڈم کالج میں ہم دونوں پہلے کلاس فیلو پھر بہترین دوست بن گئے۔ اقبال رانچی انڈیا سے تعلیم کی خاطر پاکستان آیا تھا اور یہاں اپنی بہن بہنوئی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ بھی میری طرح اکلوتا اور اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا تھا۔ اُسے والدین نے اپنے سینے پہ جدائی کی بھاری سل رکھ کر بہتر مستقبل کی تلاش میں ڈھاکہ روانہ کیا تھا۔ اقبال بہت کم گو تھا جب کہ میں بلا کا باتونی اور چرب زبان، میں تو نچلا بیٹھنا جانتا ہی نہ تھا۔ ہم دونوں میں سوائے ذہانت کے اور کچھ بھی تو مشترک نہ تھا مگر اب ہماری دوستی ایسی دانٹ کاٹی کے ایک دوسرے کے بغیر پل نہ گزرتا۔ اقبال کا بیشتر وقت اب میرے ہی گھر کے مردان خانے میں گزرنے لگا تھا اور وہ بہت خوش بھی کہ اب اس کی اپنے بہنوئی کی گھورتی آنکھوں اور کڑوے لہجے سے قدرے بچت ہو جاتی تھی۔
پاکستان کے مشرقی افق پر تعصب اور نفرتوں کی گھٹا، کسی بھی لمحے کو برسنے کو تیار کھڑی تھی۔ حالات تیزی سے بدلتے جا رہے تھے، کل کے گہرے دوست پہلے اجنبی پھر دیکھتے ہی دیکھتے جانی دشمن بنتے چلے گئے۔ یہ تبدیلی اتنی سرعت سے آئی تھی کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اتحاد اور یگانت کے قعلے میں سیندھ لگی۔ یگانت کو نقصان پہنچ چکا تھا اور مقامِ حیرت کہ حکام بالا ابھی تک "سب اچھا ہی کی ڈفلی بجا رہے تھے۔ حالات کی تندی کو محسوس کرتے ہوئے ابا نے اپنا تبادلہ مغربی پاکستان کرانے کی کوششیں شروع کر دیں مگر مغربی پاکستان میں ہمارا کوئی رشتے دار نہ تھا جو ابا کی فائل کو مہمیز کرتا۔ ان حالات میں ابا نے خدیجہ، میری تیسری بہن کی فوری شادی کا فیصلہ کیا۔ خدیجہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو برادری سے باہر جا رہی تھی۔ ابراہیم بھائی سید تو تھے مگر رشتے دار نہیں۔ ابا بس ایک ہی بات سے فکر مند تھے کہ خدیجہ کو بیاہ کر بوگرہ جانا تھا جبکہ ابا نے نوشے بھائی اور دولھا بھائی کو بھی مغربی پاکستان ٹرانسفر کروانے لیے زور ڈالنا شروع کردیا تھا۔
ہم لوگوں کے انٹر کے امتحانات ہو چکے تھے اور میں بہت مطمئن تھا، ڈھاکہ میڈیکل کالج بس نتیجے بھر کی دوری پر تھا۔ میری آنکھیں مستقل کے روشن خوابوں سے تابناک تھیں۔ اقبال کے پیپرز بھی اچھے ہوئے تھے اور وہ بھی داخلے کے سلسلے میں پر امید تھا۔ ویسے بھی اس کے ابا نے اسے یقین دلایا تھا کہ میڈیسن پڑھنے میں اسے دقت نہیں ہوگی کہ ضرورت پڑنے پر وہ کھیت بیچ دیں گے مگر اقبال ایسا نہیں چاہتا تھا۔ اقبال اپنے جیب خرچ کے لیے چھوٹی موٹی نوکریاں اور بچوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا۔ اس فراغت کے دور میں اس نے نوکریوں اور ٹیوشن پڑھا پڑھا کر اچھی خاصی رقم پس انداز کر لی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ اقبال جوان قالب میں ایک بوڑھی روح تھا۔ نہ ہی پان، سگریٹ کا شوق اور نہ ہی فلم بینی کی لت۔ کسی علت میں نہ تھا گویا اگر زمین پر چلتا پھرتا فرشتہ دیکھنا ہو تو آپ اقبال کو دیکھ لیجیے۔ میں سگریٹ تو نہیں البتہ پان کا شوقین اور فلم بینی کا رسیا تھا۔ اگر ہفتے میں ایک فلم نہ دیکھوں تو مجھے زندگی بد مزہ لگنے لگتی تھی۔ میں فلم دیکھنے کے لیے اقبال کو بھی گھسیٹا مگر وہ اللہ کا بندہ چونٹے کی طرح مستقل مزاج اور دانہ دانہ جمع کرنے کا قائل و دھنی لہذا شاید ہی کسی اتوار میرے زور زبردستی پر میرے ہمراہ ہو لیتا۔
انہی فرصت کے دنوں میں اقبال نے مجھے سے دو بچیوں کو ٹیوشن پڑھانے کی گزارش کی۔
تم خود کیوں نہیں پڑھا لیتے؟
میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
بات یہ ہے کہ وہ لوگ عرصے تک ہمارے پڑوسی رہے ہیں، ان سے پیسہ لیتا کیا میں اچھا لگوں گا؟
تم پلیز کر لو نا امان، خالہ نے اتنے مان سے کہا ہے۔
گو مجھے پیسے روپے کی کمی نہ تھی پر فراغت نے اب بور کرنا شروع کر دیا تھا پھر اس کا ملتجانہ لہجہ بھی بے بس کر گیا۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے حامی بھر لی۔ اسکول میں گرمیوں کی تعطیلات تھی اور ان دونوں لڑکیوں کو ہفتے میں پانچ دن، چار سے ساڑھے پانچ بجے تک پڑھانا تھا۔ یہ لوگ بھی چوں کہ محمد پور، ایوب گیٹ پر ہی رہتے تھے سو میں نے پیدل ہی کا آنا جانا رکھا۔ البتہ اگر کسی دن مجھے بلاکا سنیما میں چھ سے نو کا شو دیکھنا ہوتا تو میں اپنے وسپا پر جاتا تاکہ وقت پر سنیما ہال پہنچ جاؤں۔
بڑی، چھٹی اور چھوٹی، چوتھی جماعت میں تھی۔ بڑی بہت ذہین اور کم گو اور چھٹکی بلا کی شریر اور باتونی۔ اسے نہ پڑھنے کے ایک سو ایک بہانے آتے تھے۔ سچی بات کہ انہیں اردو اور حساب کے علاوہ کسی بھی مضمون میں مدد کی ضرورت نہ تھی۔ حساب کی مشقوں کے دوران چھوٹی کے سوالات ناکوں چنے چبوا دیتے تھے۔ ٹھیک ساڑھے چار بجے ان کا ملازم، ٹرے میں گرما گرم چائے اور اس کے ساتھ کبھی بسکٹ، کبھی کباب یا گھر کا بیک شدہ کیک، ٹرے پر سلیقے سے رکھ کر لاتا۔ عصرانے میں ان لڑکیوں کا بھی حصہ ہوتا مگر انہیں چائے نہیں بلکہ پینے کے لیے دودھ ملتا۔
بڑی تو متین طبیعت تھی پر چھوٹی میری چائے کو للچائی نظروں سے دیکھتی اور کہتی، میں کب آپا جتنی بڑی ہوں گی کہ بے دھڑک چائے پی سکوں۔ تب میں نے جانا کہ ان کی ایک بڑی بہن بھی ہے۔ میں نے اقبال سے پوچھا تو اقبال نے مجھے بتایا کہ ہاں یہ لوگ تین بہنیں ہیں۔ بڑی بھی اسی سال انٹر کا امتحان دے کر فارغ ہوئی ہے اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلے کی متمنی۔ وہ گھرانہ مجھے پسند آیا تھا۔ ان لڑکیوں کی والدہ بھی دبلی پتلی چھریری، خوش اخلاق و با وضع خاتون تھیں۔ وہ ہمیشہ کلف و ابرق لگی ساڑھی میں نظر آتیں۔ ایک دفعہ بڑی بہن بھی نظر آئی اور میں دل ہی دل میں اس گھرانے کے حسن کا قائل ہوگیا۔
ان دونوں کی سنگت میں میرا وقت اچھا گزر رہا تھا۔ بڑی تو دل لگا کر پڑھتی اور سبق ازبر کرنے یا ہوم ورک میں کبھی کوتاہی نہیں کرتی پر چھوٹی، آفت کی پرکالا تو تھی ہی پر نمبری بہانے باز بھی۔ اس سے دنیا بھر کی باتیں کروا لو۔ وہ ٹی وی کی از حد شوقین Dennis the menace، Robin Hood، danger man سب دیکھا ہوا تھا پر اس کا پسندیدہ پروگرام چارلی چیپلن تھا۔ مزے سے اس کی ایسی عمدہ نقل اتارتی کہ ہنسی روکنا محال ہو جاتا۔ اس کے چکر میں اکثر اتوار کی صبح میں بھی چارلی چیپلن دیکھنے لگا تھا۔
ایک شام میں نے ان کے گھر
چاند کو اترے دیکھا ہم نے، چاند بھی کیسا، پورا چاند
ایسا روشن روشن ہنستا باتیں کرتا چاند
ایسا مکمل حسن میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔ میرے خاندان کا حسن مشہور تھا کہ اس خاندان کی ہر لڑکی زہرہ جبیں و تابندہ تھی پر وہ۔۔
وہ شاید پرستان سے بھٹک کر اس دنیا میں آ گئی تھی۔
بے داغ ملیح رنگت، ایسی چمکتی ہوئی جیسے رخصت ہوتا ہوا سورج گندم کے کھیت میں سیندور کی تھالی الٹاتا جائے۔ میں اس کے حسن کو بیان کرنے سے قاصر تھا اور ہوں۔ بادامی کھینچی آنکھیں اور پلکیں ایسی دبیز کہ جھک جائیں تو چار سو اندھیرا ہی اندھیرا۔ ستواں ناک جس پر دو عالم وارا جا سکتا تھا۔ اس کے بال کالے نہیں تھے۔ ان میں عجیب سی سرخی تھی اور خوب کنڈل والے، ایسے گھونگھریالے کہ بندہ انہیں سلجھانے کی چاہ میں الجھ الجھ جائے۔ قد بت ایسا کہ زاہدوں کی توبہ ٹوٹ جائے۔ اس پہ طرہ اس کی مسکراہٹ جان لیوا تو باتیں معجزہ عیسٰی۔ میں نے ویسی لڑکی نہ اُس سے پہلے اور نہ ہی کبھی اُس کے بعد دیکھی۔ وہ قدرت کا ایسا ہوش ربا شاہکار تھی جس کے بعد مصور اپنا برش توڑ دیا کرتے ہیں۔ میں جو اپنے خاندان کا یوسف تھا اس کا نعلین بردار ہونے کو خوش بختی جانتا۔ اس کے ملکوتی حسن سے زیادہ مجھے اس کا ہنس مکھ ہونا اور اس کی نقرئی جھرنے جیسی ہنسی پسند تھی۔
سیما جب جب ان کے گھر آتی، ان کے گھر کا ڈسلپن درہم برہم ہو جاتا۔ اس کے آنے سے گویا گھر کے در و دیوار بھی زندہ ہو جاتے تھے۔ بلا کی شرارتی تھی۔ جس دن وہ آتی شام کی چائے کی شامت آ جاتی۔ کبھی چائے میں نمک، تو کبھی میمن سنگھ کے رس ٹپکاتے رس گلے میں ہلاہل نمک اور آلو کے کٹ لٹ میں چینی بھر دیتی۔ عجیب شرارتیں تھیں اس کی بھی۔ باغیچے سے اس کوئل جیسی کوک میری یکسوئی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتی۔ یہاں تک کے میری اڑتی ہوائیوں سے دونوں لڑکیاں بھی محظوظ ہوتیں۔ وہ اس زمانے کی سنجیدہ و متین لڑکیوں سے یکسر مختلف تھی۔ اکثر جان بوجھ کر میرے سامنے آ جاتی اور مجھ سے اوٹ پٹانگ سوالات کرتی۔ اسے دیکھ کر میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا اور میری ہتھیلیاں پسیج جاتیں۔ جواب دینے کی کوششوں میں ہکلانے لگتا اور وہ ظالم میری بد حواسیوں سے جی بھر کر خط اٹھاتی۔
میں جیسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم وہ تکلم تیری عادت ہی نہ ہو
اکثر اس کی آنکھوں میں مجھے اپنا آپ نظر آتا اور ایک دن جب میں وسپا پر گیا تھا تو واپسی پر پورٹیکو میں کھڑے میرے وسپا کی سیٹ پر چمپا کے پھولوں کے نیچے ایک چھوٹی سی ٹھیکری سے دبا رقعہ بھی تھا۔ پر وہ رقعہ کب تھا؟ وہ تو جنتوں کی نوید تھی اس میں سیما کا معصوم اقرار تھا۔ میں ہواؤں میں اڑنے لگا، اپنے قسمت پر جتنا رشک کرتا کم تھا کہ میں تو نصیب کا سکندر نکلا۔ خدیجہ کی شادی پر میں نے ان لوگوں کو بھی دعوت نامہ دیا اور سیما بھی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ شریک محفل تھی۔ میری آنکھوں کے پیام شاید اتنی واشگاف تھے کہ بڑی اور چھوٹی آپا کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہ پڑی اور وہ دونوں میری ہم نوا ہوئیں۔
یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ خوشیوں کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ ابھی تو میں پریم رس سے پوری طرح سے شرابور بھی نہیں ہوا تھا۔ ابھی تو صرف آنکھیں ہی پیامی تھیں کہ باد سموم چل پڑی اور محبت کی کلی کھلنے سے پہلے ہی کملا گئی۔
سقوط مشرقی پاکستان ہوا اور سب تتر بتر ہوں گئے۔ جانے پناہ کی تلاش میں کون کون کہاں کہاں بے پناہ ہوا؟ ابا اپنے خاندان کو لے حفاظت کے خیال سے کرمی ٹولہ فوجی چھاؤنی چلے آئے۔ میں جان پر کھیل کر ایک رات بیرک سے نکل کر ایوب گیٹ آیا مگر ان لوگوں کا گھر لٹا اور جزوی طور پر جلا ہوا تھا۔ وہاں ایک ویرانی اور وحشت مسلط تھی۔ مجھے اقبال کا بھی کوئی پتہ نشان نہیں ملا۔
ہم لوگ لگ بھگ ڈھائی پونے تین سال ہندوستان کے شہر کلکتہ کی جیل میں جنگی قیدی رہے۔ خالی ہاتھ پاکستان پہنچے اور زندگی کی دوڑ میں گدھے کی طرح جت گئے۔ سقوط کا الم اور کاروبار کی تباہی کا غم ابا جان کو گھن کی طرح چاٹ گیا اور ابا جان آزاد پاکستان میں فقط چار ماہ ہی جیے۔ جب بائیس فروری کو اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں شیخ مجیب الرحمٰن نے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا، عین اسی وقت اِدھر کراچی میں ابا جان کی روح فریاد کناں اپنے رب کے دربار حاضر ہوئی۔
بس پھر میں تھا اور ستم ہائے روز گار۔
بڑی آپا اور خدیجہ بنگلہ دیش ہی میں رہ گئیں۔ 1975 میں منجھلی آپا پاکستان آ گئیں۔ ہم سب آسمان سے زمین پر آ چکے تھے اور وقت کی کٹھالی میں باریک پیسے جا رہے تھے۔ امی جان کی صحت جواب دے چکی تھی اور سب سے بڑی آفت تو منّی پر آئی تھی۔ اس کے ذہن نے ان سانحات کو جانے کیسے جذب کیا کہ وقت کی انہی ظالم ساعتوں میں ٹھہر گیا۔ منّی کی عمر آگے بڑھ گئی پر ذہن گیارہ برس کا ہی رہ گیا۔
تلاش روزگار میں میرے پیروں میں چکر بندھ گئے اور میں کویت آ گیا۔ امی جان کے انتقال کی خبر پر میں نوکری چھوڑ کر پاکستان واپس آیا تا کہ منّی کے ساتھ رہ سکوں۔ خدیجہ نے منّی کی ذمہ داری لینی چاہی مگر مجھے منظور نہ تھا۔ منّی کی وجہ سے مجھے باہر کی بہتر نوکریوں کی پیشکش چھوڑنی پڑی کہ منّی میری اولیت تھی۔ اس تمام بیچ دل کی ایک ہی ضد تھی سیما، سیما، سیما۔ میں کراچی کی سڑکوں، بازاروں پر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سیما کو کھوجتا پر سیما پھر کبھی ملی ہی نہیں۔ جو سچ بتاؤں تو ان سانحات و صدمات نے مجھے مار دیا تھا۔ مجھے بس منّی کی فکر اور سیما کی تلاش دوڑائے چلتی تھی۔ میری زندگی کا ایندھن یہی دونوں تھیں۔
80 کی دہائی میں امریکن امیگریشن ایسی مشکل نہ تھی۔ امیگریشن کی قرعہ اندازی میں میرا نام نکلا اور میں اور منّی اٹلانٹا چلے آئے۔ پھر میں نے اپنی تینوں بہنوں کو بھی ادھر ہی بلا لیا۔ اب دل کے سوا سب سیٹ تھے۔ عرصے بعد اقبال کا پتہ بھی مل گیا۔ وہ بنگلہ دیش بننے کے بعد واپس ہندوستان چلا گیا تھااور بنارس میں اپنی ڈاکٹری کی کامیاب پریکٹس کر رہا ہے۔
میری زندگی بہت آگے چلی گئی مگر دل کی کسک نہ گئی۔ بہنوں کے اصرار پر خانہ آبادی بھی ہوئی اور پوری کوشش سے ہر ذمہ داری نبھائی بھی۔ بیوی سے محبت بھی فرض کا قرض جانا مگر کمبخت دل کا گوشہ سدا ویرانہ ہی رہا۔ سچ ہے کہ پہلی محبت بڑی ظالم ہوتی ہے بلکہ پہلی محبت ہی محبت ہوتی باقی سب تو دل کے بہلاوے یا نفس کی مجبوری ہوتی ہیں۔
یہ نا مراد پہلی محبت بڑی اڑیل۔ نہ بھلائی جاتی ہے اور نہ ہی بسرتی ہے بلکہ کبھی بھی کہیں بھی اچانک کسی ڈوبتی شام کی شفق میں، کسی چائے کی چسکی میں۔ کسی گیت کے لے یا کسی معدوم ہوتے ذائقے میں چھم سے شعور میں کوند جاتی ہے اور پل کے پل میں بندے کو حال سے اڑا کر ماضی میں کہیں بہت پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ یہ مبتلاء آزار کو کبھی بھی مکمل طور پر رہا نہیں کرتی کہ یہ ایڑی میں چبھا وہ کانٹا ہے جو نکل چکنے کے باوجود اپنے ہونے کا یقین برقرار رکھتا ہے۔ اس نا مراد کی آنکھ مچولی آخری سانس اور ڈوبتے منظر تک جاری رہتی ہے۔
سب کو ہم بھول گئے جوشِ جنوں میں لیکن
اک تیری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی