Noor e Baseerat
نورِ بصیرت
کھنکھناتی مٹی سے پیدا ہوا بشر۔ اس حقیر و پُر تقصیر کے اندر کیسے جہان رکھے ہیں ربّ تعالیٰ نے، مٹی میں محبت کا نور گھل گیا تو وہ مٹی پاک ہوگئی۔ محبت کی مٹی سے بنا تنِ خاکی اپنی فطرت سے پرے کیسے جاۓ؟ وہ تو ازل سے چاہت کے نور میں گھل کر تخلیق ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ میری تخلیق بھی کسی ایسی مٹی سے ہوئی ہے تبھی ایک بےچینی لئیے کھوجتی رہی۔
محبت کا مفہوم عشق کی تشریح، روح کی طالب، کیا کہوں؟ مجھے تو نور، نور اور بس نور کی تلاش تھی میں اسے محسوس کرنا چاہتی تھی۔ دل کے آئینے میں اس کا عکس تلاشتی تھی۔ جسم سے پرے روح کی لطافت اور نورانیت کو دیکھنے، سمجھنے اور کھوجنے کی متلاشی تھی۔ محبت سے آگہی چاہتی تھی۔ وہ محبت جو روح سے منسلک ہو، پاک ہو۔ تب طلب بڑھنے لگی جستجو بے چینی کی سرحدوں پر آ کھڑی ہوئی۔
تو میں نے اسے پکارا اے ربّ دو جہاں، مجھے کوئی راہ دکھا، سمجھا، بتا۔ تو آواز آئی نور، نور اور نور کی چاہ کرنے والی نادان۔ نور مل گیا تو سنبھالو گی کیسے؟ آنکھیں بہت زیادہ روشنی برداشت نہیں کر پاتیں۔ ایک حد سے زیادہ۔ پہلے اپنے آپ کو اس قابل تو بنالو۔ دل درگاہ میں خواہشات آرزوؤں کا کوڑا کاٹھ کباڑ جمع کرکے دل کو نورانی دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے گڑبڑا کر شرمندگی سے سر جھکا لیا اور آنکھوں نے ندامت کے دریا بہنے لگے۔
کچھ دیر خاموشی رہی، پھر آواز آئی آنسوؤں کی جانچ کی بنا پر دل، دماغ، جسم کی صفائی و پاکی ممکن ہوگی اور تب پاکی اور پاکیزگی کے معنی اشک ندامت سے وضو کرتے ہوۓ مجھ پر کھلے۔ تب زبان پر اللہ ربُ العزت کا ذکر مٹھاس سے بھرا نام اللہ، اللہ اور اللہ کا ورد بن کر رواں ہوا اور دل کی زبان میں محمد مصطفے ﷺ کے نام سے درود کی شہد آگیں مٹھاس گھلنے لگی تو"محبت کو محسوس کیا تو پہلی بار سمجھ آئی کہ سچی محبت جسم کے احساس سے ماورا بھی ہو سکتی ہے۔ یہ لمس کی طلب سے آزاد ہوتی ہے۔
یہ آواز کی لسانیت سے پرے ہوتی ہے۔ اتنی نورانی ہوتی ہے کہ چھونے کی تمنا ہی دل میں نہیں جاگتی۔ تبھی مجھ پر کھلا کہ محبت جھکنا سکھاتی ہے۔ سجدہ کرنا سکھاتی ہے۔ عبادت کرنا سکھاتی ہے۔ یہ شرک سے ماورا ہوتی ہے۔ اور یہ کھلا جس محبت میں شرک کی گنجائش نکل آئے وہ محبت ہی نہیں ہوتی۔ لعنت ہوتی ہے اور اسی لئیے شرک، شرک اسی لئیے گناہ کبیرہ ہے اور مشرک کو معافی نہں۔
جب تلک شرک چھوڑ کر بارگاہ الٰہی میں سرنگوں ہو کر توبہ نہ کرے، بس دل درگاہ میں ایک فقط ایک نام اللہ کی محبت سے سر نگوں ہو کر سجدے میں جھکنا سچی محبت ہے جب میں نے یہ مانا، تو آنکھ کی بینائی میں نور بڑھنے لگا۔ روح توانا محسوس ہونے لگی۔ تب میں نے محسوس کیا کہ نور کہیں باہر سے نہیں ملتا نور تو ربّ تعالٰی نے آپ کے اندر ہی رکھ دیا ہے چھپا دیا ہے۔
پیشانی میں، آنکھ کی بینائی میں ہونٹوں پر، دل کی دھڑکنوں میں، ہاتھوں میں انگلیوں کی پوروں میں، جسم کی ہر رگ میں، ربّ تعالٰی نے نور رکھ دیا ہے مگر ہم انسانوں کو اس کا شعور نہیں ہوتا۔ آگہی نہیں ملتی ہم اندھیروں میں کھوج نہیں کرتے کہ روشنی کا بٹن کہاں ہے؟ اندھیرا دیکھ کر واپس پلٹ جاتے ہیں کہ اندھیرے میں روشنی کہاں ملے گی کیونکہ ربّ تعالٰی نے ان اندھیروں میں روشنی رکھ دی ہے۔ یعنی نور رکھا ہے۔
سجدے میں زمین پر سر رکھ کر اس ذاتِ واحد کی مدحت بیان کرکے جب اٹھی تو پہلی بار نور کی لہر پیشانی پر محسوس کی۔ جب کلمہ طیبہ کے نورانی الفاظ سے زبان آشنا ہوئی، نور زبان میں گھل گیا۔ جب درود لبوں پر جاری ہو کر آنسوؤں کی لڑی میں پروتی گئی تو نور ہی نور انگلیوں میں اس کی پوروں میں تسبیح کے دانوں میں سرایت کر گیا۔ جب جب اللہ کی چاہت میں اس کی رضا کے لئیے من کو مار کر صبر کر لیا، تو نور کی لہر محسوس کی"۔
نور کی چاہ کرنے والو سُنو آقا ﷺ کیُ چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کریں تو نور ملتا ہے۔ آقا ﷺ کی یاد میں درود پڑھو تو زبان نورانی ہو جاتی ہے۔ آقا کی یاد میں محبت میں تڑپ کر رونے سے محبت کا نور آنکھوں میں سما جاتا ہے کہیں نفس کی نفسانیت کو کچل کر انا کو قربان کر کے عجز کا کاسہ اٹھا لیا تو نور کی لہر مل گئی۔
اپنے اندر دل کے سمندر میں منہ زور اٹھتی تکبر کی لہر کو عاجزی کے ساحل پر لا کر پٹخ دیا اور نہ چاہتے ہوۓ کسی کی زیادتی کو بھلا کر معاف کر دیا، تو نور ملتا ہے۔ اللہ اکبر۔ کیا کیا بیان کروں اس سوہنے ربّ کی عطا جب نورانی الفاظ کی صورت ملتی ہے تو سچ میں نور کی لہریں میرے چاروں جانب رقصاں کرتی ہیں اور تب میں اور میرا مادی جسم نہیں رہتا تحلیل ہو کر صرف روح کے نورانی پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔
جہاں صرف نور ہی نور ہوتا ہے ربّ کی سچی محبت کا، رحمت کا ٹھاٹھیں مارتا بحر بیکراں اور آقا ﷺ کی محبت و عشق کے سفینے پر سوار ہو کر عشاق مصطفٰےﷺ کی ارواح جانے کہاں چلی جاتی ہیں؟ یہ ربّ تعالٰی جانے یا ربّ کا محبوب پاک۔