Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaaz Malik
  4. Milne Ke Nahi Nayab Hain Hum

Milne Ke Nahi Nayab Hain Hum

ملنے کے نہیں نایاب ہیں

کیا کہیں کیا بتلائیں کیا سنائیں کیا سمجھائیں کہ ہم ایسے کیوں ہیں۔ آخر اس دنیا میں ہم انسان لوگ ہی اتنے عجیب کیوں ہیں۔ کیوں ہم اپنا رنگ چڑھا جاتے ہیں، یا پھر اپنا رنگ دکھا جاتے ہیں یا تو دل میں اتر جاتے ہیں یا دل سے اتر جاتے ہیں، یہ یا تو دل جوڑ جاتے ہیں یا دل توڑ جاتے ہیں۔ ہونٹوں پر دعا بنکر مسکراہٹ بن جاتے ہیں تو کبھی اشکوں میں ڈھل کر بد دعا بن جاتے ہیں۔

محبت دوستی میں وفا کرتے کرتے ازلی مجبوریوں کا ہاتھ تھام کر بے وفائی کر جاتے ہیں۔ خود پر ظلم ہوتے دیکھ کر سہہ کر مظلوم بن جاتے ہیں اور دوسروں کے حقوق اور خوشیوں کو سلب کر لینے کی خواہش پر حسد کرتے ہوۓ ظالم بن جاتے ہیں۔ دوسروں پر جبر مسلط کرتے ہوۓ جابر اورلاحاصل آرزوؤں پر خود پر ترس کھاتے ہوۓ صابر بن جاتے ہیں۔

ایک چہرے پر کئی چہرے لگاۓ کئی نقاب چڑھاۓ اپنی اصلیت چھپاۓ دوسروں کی اصلیت بے نقاب کرنے کے خواہاں ہم لوگ خور پر تکلیف آۓ تو شور مچا کر واویلا مچاتے ہیں۔ اور دوسروں کی تکلیف پر دم سادھ کر خود کو چپ کی بے حس بکل میں چھپا لیتے ہیں۔ اپنی مدد لینی ہو تو لوگوں سے چھپانے کی درخواست کرتے ہیں دوسروں کی مدد کی ہو تو ہر جا پرچار کرتے ہیں۔

اپنے قصور غلطیوں پر رب کی بارگاہ میں معافی طلب کرتے ہیں۔ مگر دوسروں کے قصور غلطیاں کبھی معاف نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہیں مانتے ہیں کہ محدود مدت جینا ہے اور پھر دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ مگر پھر بھی دوسروں کو مار کر خود لمبی عمر جینے کی خواہش کرتے ہیں۔ اپنے اعمال کی بد اعمالیوں سے بے خبر رہ کر دوسروں کے حال احوال و اعمال پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔

اپنی عورتوں پر جبر کے پہرے لگا کر انہیں پردوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ اور دوسری عورتوں کے سر کی چادر بھی چھن کر اتارکر انکی عزت کے پردے کو چاک کرنے میں کوشاں رہنے والے انسان نما درندہ صفت شیطان لوگ اپنے جہنم میں جانے کی فکر یہ سوچ کر اسلئیے نہیں کرتے کہ ہم راہ راست پر ہیں، جنت میں جانا ہمارا ازلی حق ہے پر دوسروں پر آنے والے عذاب اور جہنم جہنمی جنتی دوزخی ہونے کا فتوی خوب دیتے ہیں۔

خود پردے میں رہ کر بے پردگی کے یوں مرتکب ہوتے ہیں کہ دوسروں کے پردے چاک کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ خود زبان درازی کر کے دوسروں کو زبان دراز کہتے ہیں اپنی جیب بھری رکھنے کے لئیے دوسروں کی جیب خالی کرنے کے چکروں میں رہتے ہیں زرا سا اختیار ملنے پرپتھر کے خدا بن کر دوسروں کے سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ اور انکا جینا حرام کر دیتے ہیں۔

انکی زندگی کے فیصلے اپنا ازلی حق سمجھ کر دوسروں کی خوشیاں تاراج کرتے ہوۓ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بھی ایک خدا اور سچا رب ہے جو خالق مالک کون و مکاں ہے۔ حرام مال سے حج عمرہ کر کے حلال مال تصور کر لیتے ہیں۔ ساری عمر عیش و عشرت میں گزار کر مرنے کی تمنا مکہ مدینے میں کرتے ہیں۔ خود اپنے ہاتھوں اپنے رشتوں کی کانٹ چھانٹ کر کے چھوڑ کے موڑ توڑ کر اپنے تنہا ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ شیطان اور حیوان کو حیران و پریشان چھوڑ انکی مسند سنبھال بیٹھے ہیں۔

دھن دولت کے نشے میں جاہل کم عقل وبے شعور وبے عمل ہو کر عالم کی مسند پر جا بیٹھتے ہیں۔ خود کو ہمیشہ بر تر اور دوسروں کو بدتر بنانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر پتھر بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ظاہر داریوں دنیا داریوں کے جال میں الجھ کر باطنی و روحانی سکون سے دور ہوتے ہوۓ ہم لوگ کہاں کے انسان ہیں اس دور دجالی میں سوچئیے زرا کیا ہم وہ اشرف المخلوق ہیں کیا اب بھی بقولِ شاعر؟

"ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم کمیاب ہیں ہم "

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan