Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sarmad Ayub
  4. Jahez Aik Nasoor

Jahez Aik Nasoor

جہیز ایک ناسور

جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ ان کى معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگ برنگے خواب چھین لیے جاتے ہیں، ان کی آرزوؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی وادیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے، جہاں انکے لئے اجالے کا سفر ناممکن ہو جاتا ہے۔ کسی نے صحیح ہی کہا تھا کہ: " جہیز ایک لعنت ہے مگر، اس لعنت کو لینے سے کوئی انکار نہیں کرتا۔"

یہ ایک ایسی قبیح رسم ہے جس سے صرف غریب والدین کى زندگی مشکل میں آتى ہے جو اسی آس پر زندہ ہوتے ہیں کہ کوئی فرشتے جیسا انسان دو جوڑے کپڑوں میں ان کى بیٹی کو قبول کرلے گا، لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکى ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جماتی جا رہی ہیں، ان سے چھٹکارا پانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

؎ عجیب رواج ہے دنیا والوں کا

اپنی رونق بھی دو اور جہیز بھی

بیٹے اور بیٹیاں اللہ کی عطا ہیں اور بیٹیوں کی پیدائش پر غم زدہ ہونا جاہلیت کی نشانی ہے لیکن جب ہم معاشرے کے رسم و رواج پر غور کرتے ہیں تو اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ سفید پوش اور غریب لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر کیوں غمزده ہوتے ہیں۔ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کے باوجود بھی جب معاشرہ شادی کے وقت ان کے گھر والوں سے تاوان کا مطالبہ کرتا ہے تو غریب گھرانے کے لوگ قرضہ اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے میں والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہوگا کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے، لوگوں کو بھى بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائیداد وغیرہ فروخت کرکے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی غیر اسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں جس سے امیر طبقے کو کوئی مشکلات نہیں ہوتیں لیکن غریبوں کے لئے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اس گھناؤنی اسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کریں۔ ذیل میں چند دردناک جملے درج ہیں، پڑھیے اور سوچیے۔۔

* جہیز کے فرنیچر کی پالش اتر گئی مگر باپ کا قرض ابھی تک نہیں اترا

* زندگی میں اتنا کماؤ کہ بیٹے کی شادی میں جہیز مانگنے کی نوبت نہ آئے اور بیٹی کو اتنا پڑھاؤ کہ جہیز دینے کی ضرورت نہ پڑے

*جہیز کیا ہے اس باپ سے پوچھو جس کی زمین بھی چلی گئی اور بیٹی بھی۔۔

* جہیز وہ ماں باپ مانگتے ہیں جنہیں اچھی طرح سے یقین ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک نکمی اولاد کو جنم دیا ہے

*جانے کتنی رہی ہوں گی مجبوریاں جو ایک باپ کا سر جھک گیا جہیز کے پیسے جمع کرتے کرتے، پھر بیٹی اور باپ بک گئے۔

*سب نے پوچھا کہ بیٹی جہیز میں کیا لے کر آئی ہے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بیٹی کیا چھوڑ کر آئی ہے

*تیرے ہی آنگن میں کھلی ہوں تتلی بن کر آسمان میں اُڑى ہوں میری اڑان کو تو شرمندہ نہ کر اے بابل مجھے جہیز دے کر وداع نہ کر

"کچھ نہیں بدلا اس سماج میں سب زبان کا پھیر اور نظروں کا دھوکا ہے۔ پہلے باپ کی حیثیت دیکھ کر شادى ہوتى ہے اب بیٹى کى سیلرى سلپ دیکھ کر شادى ہوتى ہے۔ جہیز وہى ہے سوچ نئی ہے۔

Check Also

Qissa Aik Crore Ke Karobar Ka

By Ibn e Fazil