Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Shokuat Iqbal
  4. Yehi Charagh Jalain Ge To Roshni Hogi

Yehi Charagh Jalain Ge To Roshni Hogi

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی

گزشتہ کئی دہائیوں سے بہتر تعلیم کے لحاظ سے ایبٹ آباد کا شمار پاکستان کے بہترین شہروں میں کیا جاتا رہا، اسے سکولوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ ملک میں ایبٹ آباد کے تعلیمی معیار کی مثال دی جاتی رہی لیکن حالیہ نویں دسویں کے بدترین رزلٹ نے بھی شائد پاکستان کے سارے ریکارڈ سر کر لئے۔ پورے ضلع میں اور خصوصاََ گلیات میں آنے والے نتیجے نے سارے نظام کی کلی کھول دی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمارا صدیوں پرانا روائتی تعلیمی نظام بوسیدہ ہو چکا جسے جدید خطوط پر استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

لیکن شائد ہمارے حکمران طبقے کو ابھی فرصت نہیں ملی یا اس سارے نظام کو بدلنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ موجودہ غیر متوقع نتائج آنے کے بعد سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں جہاں سخت تشویش پائی جاتی ہے وہاں حسب روایت بہت سے دانشوروں کو موجودہ نتائج کے پیچھے بھی سازش کا عنصر نظر آتا ہے۔ ان میں بڑی تعداد ری چیکنگ کا مطالبہ کر رہی ہے جو کسی حد تک جائز بھی ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ پورے خطے سے لائق طلبہ ناپید ہو چکے لیکن مجھے ایسی بھی کوئی خوش فہمی نہیں کہ ہمارے ہونہار شہزادے کی سازش کا شکار ہو گئے۔ آج سے زوال کا زمہ دار کوئی ایک شخص نہیں بلکہ ہم بطور معاشرہ اس امر کے مکمل زمہ دار ہیں۔ اساتذہ، والدین، طالب علم، ہماری مقامی قیادت اور معاشرے کے ہر باشعور شخص کا اس بدترین زوال میں اہم کردار ہے۔

جہاں ہمارے اساتذہ (چند کے علاوہ) اس معزز شعبے کو صرف اور صرف اپنی روزی روٹی پکی کرنے کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں سکول میں صرف حاضری پوری کرنے آتے ہیں۔ وہاں بھی غیر تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ بہت سے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے حضرات تو محض مہینے کے آخر میں سائن کرنے جاتے ہیں۔ ہمارے سسٹم میں اساتذہ والدین کیساتھ رابطہ رکھنے کی ضروت محسوس ہی نہیں کرتے وہاں ہمارے والدین بھی صبح بچے کو روانہ کر کے اپنے فرائض سے بری ذمہ ہو جاتے ہیں۔

اب بچہ سکول جائے نا جائے اگر گیا تو اس نے کیا سیکھا؟ کوئی ٹیچرز موجود تھے بھی کہ نہیں؟ کبھی یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ گو کہ میں یہ تسلیم کر چکا ہوں کہ مجھ سمیت معاشرے کا ہر شہری اس بدترین زوال کا ذمہ دار ہے لیکن اگر ہم زمہ داران کو کم کرنے کی کوشش کریں تو میری ناقص رائے میں اس سب کارنامے کے مؤجد دو طبقے ہیں۔ پہلا ہماری (PTC) پی ٹی سی کمیٹیاں اور دوسرا ہماری مقامی سیاسی قیادت اور اگر ایسے نتائج سے مستقبل میں کوئی بچا سکتے ہیں تو وہ بھی یہی دو طبقے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری مقامی سیاسی قیادت نے فوٹو سیشن کے علاوہ کبھی سکولز پر توجہ ہی نہیں دی یا یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان میں سے بیشتر نے خود بھی کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا ہو گا۔ چلو مانتے ہیں آپ کے پاس اختیار نہیں ہے آپ قانون سازی نہیں کر سکتے لیکن آپ اپنے قریبی اسکول کو چیک تو کر سکتے ہیں، اساتذہ کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، حاضری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کے درمیان اس لاتعلقی کو ختم کر سکتے ہیں۔

کوئی ماہانہ سالانہ تقریب منعقد کروا سکتے ہیں جس میں سب کی شرکت ممکن ہو۔ کچھ رابطے کا ذریعہ بنے لیکن سارے علاقے میں مجھے کوئی ایسی مثال نہیں ملی۔ اب آتے ہیں پی ٹی سی کمیٹی پر تو اس میں بھی زیادہ تر سیاسی سفارش یا اثر و رسوخ نظر آتا ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کمیٹی ممبران اپنے مقاصد سے ہی لاعلم ہوتے ہیں۔ گلیات کو چھوڑیں پورے ایبٹ آباد میں شائد ہی کوئی مثال مل جائے جہاں پی ٹی سی کمیٹی نے کبھی کوئی کردار ادا کیا ہو۔

ہمارے ہاں اکثریت والدین تعلیم سے یا تعلیمی سسٹم سے نابلد ہیں۔ پی ٹی سی کمیٹی کا کام ہے ان کو قائل کرنا، چیک ان بیلنس رکھنا لیکن ہمارے اکثریت کمیٹی ممبران اس لئے چنے جاتے ہیں کہ سکولز کے فنڈ کا حساب رکھا جائے۔ ٹھیک ہے یہ کام بھی کریں لیکن ان کمیٹیز کو بنانے کا ہرگز مقصد صرف فنڈز کا حساب نہیں ہے لیکن ساری توجہ اس جانب ہوتی ہے۔

تیسری سب سے بڑی وجہ نقل مافیہ ہے بدقسمتی سے اس کی نگرانی خود ہمارے اساتذہ کرام فرماتے ہیں۔ معاشرے کا ہر شخص بخوبی اس بات سے باخبر ہے۔ ہمارے چند نوجوانوں نے چند سال پہلے اس برائی کے خلاف کیمپین چلائی تو سب سے زیادہ مزاحمت والدین اور اساتذہ کی طرف سے سامنے آئی۔ جو معاشرہ خود زوال کی طرف بھاگ رہا ہو بھلا اس کو کون بچا سکتا ہے پھر نتائج ایسے ہی آتے ہیں۔

اب اس بدترین زوال کا حل کیا ہے؟ اور مستقبل میں اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ اس میں سب سے بڑی ذمہ داری ہر باشعور شہری اور خصوصاََ ہماری مقامی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جنگل پولیس دیگر سماجی معاملات پر تو سیاسی کمیٹیاں اور جرگے والے تو موجود ہیں لیکن اس تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے کوئی سامنے نہیں آتا ہے۔

ہماری قیادت کو چاہیے کہ وہ اساتذہ اور طلبہ کی حاضری کو یقینی بنانے، تعلیمی نصاب کو مکمل کرنے، اور والدین کو اس طرف مائل کرنے کے لئے بھی کمیٹیاں ترتیب دیں، خود ان کی نگرانی کریں۔ ہر ماہ کے آخر میں ہر سکول میں تقریب منعقد کریں جس میں علاقے کے سب لوگوں کو شامل کریں شعور بیدار کریں۔ تمام پی ٹی سی کمیٹیاں دوبارہ سے ترتیب دیں اور ان میں پڑھے لکھے باشعور افراد خصوصاََ نوجوانوں کو شامل کریں جو سارے ایشوز کو سمجھیں اور حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔

نقل کروانے والے اساتذہ کیخلاف سخت ایکشن لیں اور اس برائی کیخلاف شعور اجاگر کریں۔ اس سے نا صرف ہمارا تعلیمی نظام بہتر ہو سکتا ہے بلکہ بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی موقع ملے گا جو کہ اب بہت محدود ہو چکا۔ خدارا یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، آنے والے کل کی امید ہیں، انھوں نے کل مملکت خداداد کو آگے لے کر چلنا ہے۔ ان کو اس بربادی سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔

Check Also

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

By Rauf Klasra