Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Shokuat Iqbal
  4. Sub Se Pehle Pakistan

Sub Se Pehle Pakistan

سب سے پہلے پاکستان

پاکستان کی بہتر سال کی تاریخ جب دیکھتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ ہمیشہ سے وطن عزیز پہ خوف نا امیدی کے برے سایے منڈلاتے رہیں اس کی ایک وجہ شاید ہماری قوم کی جلد بازیاں نا امیدی اور سیاسی ناپختگی ہے۔

بدقسمتی سے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی بانی پاکستان رحلت فرما گئے اور انھیں اس قوم کی وہ تربیت کرنے کا موقع نا مل سکا جو ہماری قوم کے لئے ضروری تھی۔ انکے بعد شازشوں کا اک نا ختم ہونے والا اک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ممالک اور اقوام کا نظم و نسق سیاسی حکمرانی اور سول سروس کی صلاحیتوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ مگر اسے زمانے کا ستم کہیں یا اپنوں کی نا اہلی انھیں دونوں نے ممکت خداد کا بیڑا غرق کیا کبھی مارشل لا کبھی صدارتی نظام کبھی پارلمانی جمہوریت غرض یہ کہ ھم نے کوئی تجربہ نہیں چھوڑا جو اس مملکت خدادا پہ نا کیا ہو مگر یہ اللہ کا کرم بزرگوں کی دعا اور شہدا کا خون ہی ہے جس کی بدولت آج بھی قائم دائم ہے۔ جہاں موجودہ بوسیدا نظام ہزاروں خامیاں ہیں وہی اس نظام کی بدولت کہی دھاہیوں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں قوم کو اک امید کی کرن نظر آئی تاہم اپنوں کے مفادات بیرونی سازش کے ملاپ سے قوم کی یہ امید بھی جلد ہی بجھ گئی پھر اسکے بعد قوم نے پارلیمانی جمہوری نظام کی وہ بدترین شکل دیکھی کہ خدا کی پناہ؛ کرپشن لاقانویت اقرباپروری کک بیک کا اک لا امتنائی سلسہ شروع ہوا جس پہ درجنوں نہیں بلکہ سیکٹروں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں بات یہاں تک پہنچی کہ تین مارشل لاء سہنے والی قوم اک مرتبہ پھر افواج پاکستان کی طرف دیکھنے لگی پھر تاریخ نے خود کو جنرل مشرف کی صورت میں دھرایا تو دو پارٹی سسٹم سے تنگ عوام نے مٹھائیاں تقسیم کی تاہم وقت کی یہ خاصیت ہے کہ رکتا نہیں جلد ہی ھماری قوم کو مشرف سے بھی الرجی ہونے لگی وقت نے پلٹا کھایا اور پھر سے سلطانی جمہوریت کے دو پارٹی سسٹم کا دور شروع ہو گیا۔

میثاق جمہوریت کے نام پہ وہی پرانے چہرے قوم پہ دوبارہ مسلط ہو گئے۔ جنہوں نے اپنی سابق راویات کو برقرار رکھتے ہوئے وہی لوٹ مار شروع کر دی۔ ان نام نہاد جمہوری آمروں نے قوم کا وہ حال کیا کہ قوم اک بار پھر سے تیسری قوت کی طرف مائل ہونے پہ مجبور ہو گئی ایسے میں ساری قوم کی امیدوں کا مرکز عمران خان بن گئے۔ پھر پچیس جولائی کو عوام نے اپنا فیصلہ سنایا اور عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔۔ لیکن قوم کو بیدار ہوتے ہوتے اب بہت دیر ہو چکی تھی فوجی اور جمہوری آمر اس مملکت خدادا سے جمہوریت کا بہترین انتقام لے چکے تھے۔ ملک معاشی لحاظ سے دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پہ لٹک رہی تھی ملکی قرضے اور ان پہ سود تاریخ کی بلند تریں سطح پہ پہنچ چکا تھا۔۔ ایسے میں عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا آپ نے گھبرانا نہیں!

لیکن ہماری غیر مستقل مزاج قوم ہر لمحہ گھبرائی رہی مگر امید اب بھی باقی جی ہاں اس قوم کی آخری امید اب بھی عمران خان ہے عمران خان نے پہلے کہا تھا یہ سب اپنے مفادات کے لئے ایک ہیں جب میں ہاتھ ڈالوں گا یہ سب اگٹھے ہو جائیں گے، لیکن تب میرے جیسے عام لوگوں کو یہ بات سہی سمجھ نہیں آئی جوں جوں وقت گزرتا رہا ساری بات کھل کر سامنے آ گئی اور یہ سارے جو کہی دھاہیوں سے اک دوسرے کیخلاف نورا کشتی لڑ رہے تھے اک جمہوری چھتری تلے جمع ہو گئے اور پھر وہی شازشی عناصر سرگرم ہو گئے وہی سیاسی عناصر جو جو دھاہیوں سے قوم کو لوٹ رہے تھے۔

عمران خان نے سیاستدانوں پہ ہاتھ رکھا تو جمہوریت خطرے میں پڑھ گئی سول سروس پہ ہاتھ رکھا تو نظام خطرے میں، بے لگام میڈیا پہ ہاتھ رکھا تو آزدی اظہار رائے خطرے میں، معاشی اصلاحات کی بات کی تو تاجر اور معیشت خطرے میں، اداروں کی اصلاحات کی بات کرے تو مزدور خطرے میں، صحت کے نظام کی بہتری کی بات کرے تو ڈاکٹر خطرے میں یکساں نظام تعلیم کی بات کرے پرائیوٹ سکولوں کے مالکاں خطرے میں، ججز کے احتساب کا مسئلہ ہو تو عدلیہ خطرے میں پڑھ گئی کہیں نا کہیں سے تو شروع کرنا ہے آخر کب تک ایسے چلتا رہے گا۔

عوام کو ریلیف دینے کی بات کرے تو کبھی آٹا کے مافیا کبھی شوگر مافیا کبھی کبھی پٹرول مافیا آئل مافیا ادویات ساز کمپنیوں کا مافیا آخر کون ہیں یہ لوگ؟

جی ہاں یہ سب اسی جمہوری نوازشات کی پیداوار ہیں یہ اسی میثاق جمہوریت کے ثمرات ہیں جو ان بڑے سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جی وہی جو ہر حکومت کا حصہ ریے یا یوں کہوں کہ جمہوری حکومتیں ان مافیا کا حصہ رہی۔ جن کیخلاف عمران خان نے علم بغاوت بلند کیا۔ مگر اب تک یہ ڈٹ کر مقابلہ کر رہے جس کی وجہ یہ بوسیدا سسٹم اور اس میں موجود ان کی جڑیں ہیں۔ جن کو نکالنے میں وقت لگے گا مگر ہم بھی عجیب قوم ہیں ان کو پھیلنے کے لئے ستر سال کا وقت دے دیا اور انکو ختم کرنے کے لئے پانچ سال بھی صبر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا ذوالفقار علی بھٹو کہ بعد چار دہائیوں کے طویل انتظار کے بعد اللہ تعالی نے اس قوم کو عمران خان جیسا نڈر اور ایماندار لیڈر دیا ہے جس سے پاکستان کا مستقبل جڑا ہے اس کی قدر کیجئے۔

ھماری کہی نسلوں نے اس ملک کے عروج کے انتظار میں اپنی زندگیاں گزار دی شاید یہ اس دور میں لکھا تھا۔ ممکن ہے ہم بھی نا دیکھ سکیں مگر ہماری نسلیں ضرور دیکھیں گی اور اس عروج کا آغاز عمران خان کر چکا بس اس کی تکمیل باقی ہے چند نااھل کرپٹ لوگوں اور اس مافیا کی عارضی مذاہمت سے اپنی امیدیں ختم نا ہونے دیں اچھے وقت کا آغاز ہو چکا میرا ملک عظیم ہے اور اپنی تمام تر عظمتوں کیساتھ ابھرے گا یہ امید جو اس ملک کی عظمتوں سے جڑی ہے ان لاکھوں شہدا کے خون کی امانت ہے۔ سربلندی اس مملکت خدادا کا مقدر ہے اور یہ اپنے مقدر کو پہنچ کر رہے گا۔ ہمارے قومی ترانے میں اس ملک کو مرکز یقین کہا گیا یہ ملک ھمارے یقین کا مرکز ہے جس دن ھم میں سے ہر ایک نے اسے حقیقی معنوں میں اپنے یقین کا مرکز بنا لیا یہ ابھر کر ساری دنیا پہ چھا جائے گا۔۔

اس مافیا اور انکے گارڈ فادر کیخلاف لڑائی عمران خان کی ذاتی لڑائی نہیں نا عمران خان اکیلا کچھ کر سکتا ہے ہم سب کو کردار ادا کرنا ہو گا کیوں کہ اگر خدا ننخواستہ عمران خان بھی ناکام ہو گیا پھر شاید ہمیں کہیں کسی مسیحا کا انتظار کرنا پڑے جس کہ نا ہم متحمل ہو سکتے ہیں نا پاکستان متحمل ہو سکتا ہے جنگ یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے اور ہمارے لئے سب سے پہلے پاکستان ہے۔

Check Also

Yaseen Ansari, Azm o Hoslay Ki Dastan

By Azhar Hussain Azmi