Insaniyat Ki Meraj
انسانیت کی معراج
وہ 28 فروری 1928 کو ہندوستان کی ریاست گجرات کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے والد کپڑے کی تجارت کرتے تھے دکھی انسانیت کی خدمت انھیں وارثت میں ملی بچپن میں ہی انھیں والد سے دو پیسے ملتے تھے اک اپنے لئے اور دوسرا کسی محتاج کے لئے! اسی پروش کے نتیجے میں غریبوں سے ہمدری انکی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا اور تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کہ پاکستان کے شہر کراچی چلے آئے۔ وہ شروع سے ہی انقلابی سوچ کے مالک تھے وہ کارل مارکس اور لینن کے نظریات سے بھی متاثر تھے کم لوگ جانتے ہیں سیاست میں بھی حصہ لیا وہ شروع میں خان عبدالغفار خان کی خدائی خدمتگار تحریک اور علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے بھی پرجوش حامی رہے لیکن سیاسی میدان کے بجائے خدمت انسانیت کو اپنا مقصد بنا لیا اور خود ایک مثال بن گیا جسے دنیا آج عبدلستار ایدھی کے نام سے جانتی ہے۔
سنہ1951 میں اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی ایک ڈاکٹر کی مدد سے وہاں اک ڈسپنسری قائم کی ابتدائی طبعی امداد کی بنیادی باتیں سیکھیں۔ وہیں پہ تدریس کا عمل شروع کیا ایدھی رات کو اسی ڈسپنسری کے سامنے بنچ پہ سو جایا کرتے تاکہ بوقت ضرورت مریضوں کو دستیاب ہوں 1957 میں کراچی میں بڑے پیمانے پہ فلو کی وبا پھیلی ایدھی نے شہر کے نواح میں خیمے لگائے اور مدافعتی ادویات مفت تقسیم کرنا شروع کر دیں یہی سے ایدھی فاونڈیشن کی بنیاد پڑی عبدالستار ایدھی کا جزبہ دیکھ کر عوام نے دل کھول کر امداد دینا شروع کر دی ایدھی نے اسی امدادی رقم سے ایک ایمبولینس خریدی اور کام شروع کر دیا ایدھی خود ہی ڈرائیور بھی تھے مالک بھی چوکیدار بھی بعد میں وہی ڈسپنسری والی عمارت خرید کر ایدھی سنٹر کی عمارت میں تبدیل کر دی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا رہا ایدھی کے کام کی شہرت پورے پاکستان میں پھیل گئی۔ حادثات کے وقت ایدھی نیٹ ورک کے فوری ردعمل سے عوام کی نظروں میں انکی اہمیت بھی بڑھ گئی ایدھی نے عام عوام سے بھیک مانگا شروع کر دی ایدھی سٹرک پہ نکلتے تو لوگ اپنا زیور تک اتار کر حوالے کر دیتے۔ ایمبولینس کے علاوہ ایدھی فاونڈیشن نے یتیم خانے اولڈ ایج ہوم پاگل خانے لاورث بچوں کو گود لینے کا مراکز پناہ گائیں بلڈ بنک بھی بنائے ایدھی ایمبولینس گنیز بک آف ولڈ ریکاڈ کیطابق اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے خود ایدھی بھی طویل عرصے تک بغیر چھٹی کے کام کرنے کا عالمی ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔
وہ کبھی سکول نہیں گئے مگر 2006 میں انھیں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنیسٹریشن کراچی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ عطا کی گئی جبکہ بریڈ فورڈ شائر یونیورسٹی نے 2010 میں انہیں اعزازی ڈگری جاری کی۔ اس کے ساتھ ساتھ نشان پاکستان کے علاوہ درجنوں قومی اور عالمی ایوارڈ سے نوازہ گیا مگر حقیقت میں ایدھی کبھی بھی ان ایوارڈ کے طالبگار نا رہے وہ انسانیت کی خدمت کا طالبگار تھے انکے مطابق انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے اور تمام مذاہب انسانیت کی فلاح کے لئے ہیں۔
ایدھی کی کل وراثت ایدھی فاونڈیشن ہے وہ بعد مرگ اپنے عضا بھی عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن بیماری کی باعث صرف انکی آنکھیں ہی عطیہ ہو سکی وہ 8جولائی 2016 کو ایدھی کا چھ دہائیوں پہ مشتمل خدمت کا سفر ختم ہوا اور وہ ہم سب کو لاواث کر کہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
ایدھی تو نا رہے لیکن ان کا نام ہمیشہ زندہ ریے گا۔ ایدھی نے قوم کو سکھا دیا کہ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نا ہوں کچھ کرنے کا جزبہ ہو تو سب ممکن ہے بڑے کام سازگار ماحول میں نہیں ہمیشہ مشکل حالات میں کئے جاتے ہیں۔ ایدھی جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایدھی نے بغیر کسی حکومتی امداد کے سب سے بڑی ایمبولینس کھڑی کر کہ ثابت کر دیا لگن سچی ہو تو مشکلات کا پہاڑ بھی راھی ثابت ہوتا ہے اس نے خود تو زندگی دو جوڑوں میں گزار دی لیکن لاکھوں لوگوں کی زندگیاں سنوار گیا۔ اس نے اپنی زات کی نفی کر دی لیکن انسانیت کی معراج کو چھو گیا۔ ایدھی اک شخصیت نہیں اک تحریک کا نام تھا ایسے لوگوں کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔