Hum Jo Tareek Rahon Mein Maare Gaye
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
پاکستان کی تاریخ ماروائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم کس کس کا رونا روئیں حالیہ اسلام آباد میں بائیس سالہ اسامہ ستی نے کی درناک موت نے سانحہ ساھیوال کی یاد بھی تروتازہ کر دی۔ اسامہ ستی کے لواحقین انصاف کے لئے دھائیاں دے رہے ہیں لیکن کیا میرے دیس میں ایسے جعلی پولیس مقابلوں میں مارے گئے مظلوموں کو کبھی انصاف ملا؟ یہاں تو چند دن تک انصاف کے لئے آواز بلند کی جاتی ہے بلند و بانگ دعوے ہوتے ہیں پھر ایسے بھلایا جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اسامہ کو انصاف کون دے گا جے آئی ٹی؟ میرے دیس کے دفاتر میں ایسی جے آئی ٹی کی ہزاروں دستاویز پڑی ہیں جن پہ گرد وغبار کے انبار لگے ہیں جوڈیشنل انکواری؟
میرے دیس میں سکیڑوں ایسی انکواریاں ہوئی جن کی کی رپورٹ کبھی منظر عام پہ نہیں آئی چاہے وہ سقوط ڈھاکہ کی ہو حمود الرحمان کمیشن ہو۔ میرے دیس کا قانون یقینا اندھا ہو چکا ھمارے اس بوسیدہ سسٹم میں عام شہری کو انصاف کب ملے گا چند دن کی بات ہے میڈیا خاموش تو سب خاموش! پھر جدائی کا درد ہو گا اور اسامہ ستی کے والدین کا کرب جو تاعمر انکے ساتھ رہے گا کون پوچھے گا انھیں۔ کون انصاف کی تسلیاں دے گا وہ بھی تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ کیا نقیب اللہ مسحود کو انصاف ملا راؤ انوار کو کیا سزا ہوئی کیا ھمارا پورا سسٹم راؤ انوار کے دفاع میں نہیں کھڑا اب تک ساھیوال کے مظوم بچے یاد ہیں کسی کو وہ آج کس حال میں ہونگے کبھی خبر لی کسی نے۔ میرے دیس کے رکھوالے ہی ظالم نہیں میری قوم بھی بے حس ہو چکی ہے۔
میں اسامہ ستی کے انصاف کی توقع کیسے کروں وہ تو غریب باپ کا بیٹا تھا۔ میرے دیس کا وزیراعظم بھرے جلسے میں قتل ہو گیا ستر سال بعد بھی انصاف نہیں ملا میں کہاں تک جاوں میرے دیس کے وزیر اعظم کا بھائی اپنے کی گھر کے باھر پولیس کی گولیوں کا نشانا بن جاتا ہے، لیکن کچھ نہیں بن سکا میرے دیس کی وزیر اعظم بھی بھرے جلسے میں ماری جاتی یے لیکن قاتل نامعلوم ہوتے ہیں۔ میں جب حالیہ تاریخ میں نظر دوڑاتا ہوں تو کہی بہادر بچہ راؤ انوار نظر آتا تو کہیں اس قوم کا ہیرو عابد باکسر بنتا ہے پھر کیوں نا جعلی پولیس مقابے ہوں جس قوم کے ہیرو ایسے ہونگے اس قوم کے بچوں کی حالت اسامہ ستی سے کیسے مختلف ہو سکتی ہے۔ راؤ انوار اور عابد باکسر ہر دور کے حکمران طبقے کے آنکھوں کا تارے رہے ہیں چاہیے وہ فوجی ہوں یا سویلین چہرے بدلتے رہے کردار وہی ہیں۔
میں سابقہ حکمرانوں کا شکوہ کیا کرو میں تو نئے پاکستان کا حامی تھا، لیکن حالات جوں کے توں ہیں عمران خان صاحب کا پولیس اصلاحات کا ایجنڈا بھی اب تک ہوا ملحق ہے نا جانے کب اس طرف توجہ ہوگی کب مثالی پولیس بنے گی کب عوام کی محافظ بنے گے کسی کو تو ابتدا کرنی پڑے گی ساھیوال کے مظلومین کو انصاف مل جاتا تو شاید اسامہ کی بھی امید ہوتی لیکن ساھیوال کے مجرم تو آزاد ہو چکے اب دیکھنا یہ ہیکہ اسامہ کے لواحقین کب دیت کی رقم سرکاری سرپرستی میں وصول کرتے ہیں پھر اک اور پولیس مقابے تک سب خاموش ہو جائیں گے نا کوئی پولیس اصلاحات کی بات کرے گا نا اسامہ کی ماں سے کوئی احوال پوچھے گا آخر ہم کس طرف جا رہے ریاست کب اپنی زمداری اٹھائے گی؟ کسی کو تو کرنا پڑے گا کب تک نوجوان ایسے مارے جاتے رہیں گے۔ فیض صاحب کی اک نظم میرے ذہن کےدریچوں سے بار بار ٹکرا رہی ہے۔۔
ھم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔
تیری ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ھم۔۔
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے۔۔
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ھم۔۔
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔