Hazara Baradari Ki Target Killing
ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ
آخر کار طویل حکومتی کوشش اور کامیاب مزاکرات کے بعد ہزارہ برادری نے شہدا کو سپرد خاک کر دیا۔ اس دوان شہدا کے لواحقین نے سخت ترین سردی میں دھرنا دیا جو انکی مشکلات اور غم کو مزید ازیت ناک بنا گیا۔ شہدا کے لواحقین کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان خود تشریف لائیں اور انکی داد رسی کریں جس میں شہدا کے لواحقین حق بجانب بھی تھے اور بطور ریاست کے سربراہ کے یہ وزیراعظم عمران خان کا فرض بھی تھا۔ کیوں کہ شہری کی جان مال عزت کی حفاظت ریاست کی زمہداری ہوتی ہے۔ جو بدقسمتی سے ہماری ریاست پوری کرنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ پھر جب بات ہزارہ برادری کی آئے تو یہ لوگ یقینا مظلوم ہیں جن کو مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
فرقہ واریت ہمارے ھاں اسی کی دھائی میں درامد کی گئی جو اک عفریت کا روپ دھار چکی، جس میں ھزاروں بے گناہ لوگ جانوں سے چلے گئے۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں جب افغان جہاد شروع ہوا تو ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار نے یہاں فرقہ واریت کا روپ دھار لیا جس کے بعد یہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا رہا۔ ایران اھل تشیع اور عرب سنی مسالک کو کھل کر امداد کرتے رہے۔ اپنے اپنے مدارس کی بہار شروع ہوئی اور پاکستان کی گلی کوچوں میں ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کا خون بہاتا رہا۔ حکومت افغان جنگ جہاد کے نام پہ ملنے والے ڈالر سمیٹنے میں مدھوش رہی اور یہاں اسلحہ بردار گروہ مضبوط ہوتے رہے پھر امریکہ بہادر افغانستان سے تو چلا گیا مگر ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار کبھی نہیں گئی۔
موجودہ دور میں اس میں مزید عالمی طاقتیں شامل ہو گئی اب ان فسادات میں ہمارے ازلی دشمن اور فطرتی اتحادی اسرائیل اور بھارت بھی براستہ افغانستان پوری شدت سے شامل ہو چکے ہیں جس کے ثبوت پاکستان اک ڈوزیر کی شکل میں دنیا کو دکھا چکا ہے۔ اسرائیلی اور بھارتی ھمدرد بھی ہماری صفوں میں جگہ بنا چکے جنھیں کنٹرول کرنے میں اب وقت لگے گا پاکستان کی انٹیلجنس ایجنسیاں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے دن رات کام کر رھی ہیں۔ درجنوں دہشتگرد گروہ گرفتار ہو چکے ہیں جنھوں نے اعتراف بھی کر لیا حالیہ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔ پاکستان میں کبھی بھی عوامی سطح شیعہ سنی تفریق گہری نہیں ہوئی نا عوام نے کبھی ان لوگوں کی باتوں پہ کان دھرے یہاں تمام مسالک کے لوگ باھمی محبت و احترام کیساتھ رہتے ہیں۔ یہ چند عالمی اسٹبلشمنٹ کے مہرے ہیں جو نا صرف عوامی مزھبی جزبات سے کھیلتے ہیں بلکہ انھیں کیش کرواتے ہیں حالیہ واقعے کا اندازہ کر لیں اس میں کوئی شک نہیں ہزارہ برداری کے لوگوں کیساتھ زیاتی ہوئی جس کا ازالہ کرنا ریاست پاکستان کی اولین زمہداری ہونی چاہیے جو اب تک پوری نہیں ہوئی۔
مگر ان لوگوں کی اس مظلومیت کو بھی کچھ لوگ اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے جس میں کچھ شہدا کمیٹی کے لوگ بھی ملوث ہیں یہاں حکومت پاکستان کے وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے دو وفاقی وزیر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی جن کا تعلق خود بلوچستان سے ہے اور پوری صوبائی حکومت ان لوگوں سے کہی دن تک مزاکرات کرتے رہے لیکن دھرنا تب ختم ہوا جب ایران کے اک لیڈر آیت اللہ مکارم شیرازی نے ختم کرنے کی اپیل کی دوسرے لفظوں میں اشارہ کیا۔ یہاں پہ بدقسمتی سے اک گروہ پاکستان سے زیادہ ایران کا اور دوسرا پاکستان سے زیادہ سعودی عرب کا اور اب تیسرا گروہ پاکستان سے زیادہ افغانستان کا وفادار بن چکا ہے۔ بات یہاں بھی نہیں رکی اب یہ لوگ سر عام بھرے جلسوں میں اپنی اس وفاداری کا دبنگ انداز میں اعلان بھی کر لیتے ہیں مگر آفرین ہے ہمارے ریاستی اداروں کو اور حکمران طبقے کو کہ نا ان مہروں کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نا کھل کر ان مزکورہ ممالک کو شٹ اپ کال دینے کی پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔ پہلے بات چند مہروں تک محدود رہی مگر ان ممالک کی کی بھاری سرمایہ کاری نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا پہ بھی ایسے دانشوروں کی کھیپ تیار کر لی ہے جو دن رات ریاستی اداروں کیخلاف پراپوگنڈے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
بہرحال حالات کیسے بھی ہوں عوام کی زندگیوں کا تحفظ ریاست کے زمے ہے جب ریاست اپنے فیصلوں میں کمزروی دکھائے تو خلا کو عالمی طاقتوں کے یہ مہرے پر کرتے ہیں۔ خاص کر معاملہ جب ہزارہ برداری کا ہو جن کے اب تک تقریبا دو ھزار کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں تو ریاست اور حکومت وقت کو ھر قدم پھونک کر رکھنا چاہیے۔ ایک اپنے پیاروں کی جدائی اوپر سے انتہائی سردی اور سونے پہ سہاگہ ملک کے وزیر اعظم کی غیر محتاط گفتگو نے رہی سہی کسر بھی نکال دی گو کے بعد میں وہ دلجوئی کے لئے بھی پہنچے تحریری معائدہ بھی ہو گیا اب دیکھنا یہ ہیکہ اس عمل کب اور کس حد تک ہوتا ہے۔ اور اب وقت ہے کہ ریاست اپنی زمہداری اٹھائے اور ان لوگوں سے کئے گئے معاہدوں میں انکی روح کیمابق عمل درامد کروائے تاکہ مستقل بنیادوں امن کا قیام ممکن ہو۔