Asaab Ki Jang
اعصاب کی جنگ
عمران خان نے کہا تھا یہ اعصاب کی جنگ ہے اور میں اس جنگ کا ماہر ہوں۔ 9 اپریل 2022 سے جاری اعصاب کی اس جنگ میں عمران خان نے خود کو اس گیم کا کھلاڑی ثابت کیا ہے۔
دوسری طرف اس کے مدمقابل حکمران اتحاد جو رجیم چینج آپریشن کے نتیجے میں وجود میں آیا اور اسکے سہولت کار اعصاب کی اس جنگ میں مکمل حواس باختہ نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس اور تحریک انصاف پر پابندی اور آرٹیکل سکس کے مقدمات کا اعلان اور اس دوران ان کا غم و غصہ درحقیقت عمران خان کے مدمقابل حکمران جماعت اور اسٹبلشمنٹ کا اعصاب کی اس جنگ میں اپنی شکست کا واضع اعلان ہے۔
یہ ایسے شخص پر ڈرانے کی کوشش کر رہے رہیں جو خود کو پہلے ہی کھلاڑی ثابت کر چکا ایسی جماعت پر پابندی کا سوچ رہے ہیں جو 9 اپریل کے بعد بدترین ریاستی تشدد ظلم بربریت کے باوجود ملک کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔
جو اغواء برائے پریس کانفرنس سے لے کر فارم 47 تک تمام حربے ناکام بنا چکی جس پارٹی کا اک خاتون کارکن صنم جاوید اک سال سے جاری بدترین سلوک کے باجود نہیں ٹوٹتی۔ یہ اک مثال ہے ایسی سیکٹروں مثالیں موجود ہیں جس میں تحریک انصاف کے لوگوں نے وہ معیار سیٹ کر دئیے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
پابندی اور غداری کے ان مقدمات کا کیا نتیجہ نکلنا ہے یہ حکمران اتحاد بھی اچھی طرح جانتا ہے اس وقت یہ شوشہ چھوڑنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ اور میڈیا اس محاذ پر مصروف رہیں اور اصل ایشوز سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
جو عام آدمی کا حال ہو چکا جس دن عام پاکستانی کے صبر جواب دے گیا ان لوگوں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ دیگر شعبوں کو چھوڑ بھی دیں تو بجلی اور ٹیکس نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ پٹرول جو اب 300 کو ٹچ کر رہا ہے تو دوسری طرف بجلی کی فی یونٹ کی قیمت 80 روپے سے تجاوز کر چکی۔ ایسے حالات میں گھریلوں صارفین تو تباہی کی طرف جائیں گے ہی صنعتی شعبہ بھی مکمل تباہی کے دھانے پر ہے اس ملک میں پہلے ہی ایکسپورٹ نا ہونے کے برابر ہے وہاں اتنی مہنگی بجلی خرید کر کون سا ایکسپورٹرز کام کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجود حکومت کے گزشتہ اک سال کی کارکردگی کی بدولت کروڑوں پاکستانی خط غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے جو بہتر زندگی گزار رہے تھے جو پہلے ھی نیچے تھے ان کے لئے شاہد کوئی نیا پیمانہ ایجاد کرنا پڑے۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف اور میڈیا اس طرف توجہ دینے سے قاصر ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈر اپنے اپنے مفادات کی گیم کھیل رہے ہیں اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کے حکمران اتحاد بڑی مہارت سے اپنی اس ناکامی کو چھپانے میں کامیاب رہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اعصاب کی اس جنگ میں پاکستانی عوام کے اعصاب کب جواب دیتے ہیں اور شاہد یہی دیکھنے کے لئے حکمران ہر روز مہنگائی کی نئی ڈوذ دیتے ہیں۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا۔۔
ہوتی نہیں جو قوم
حق بات پر یکجا
اس قوم کا حاکم ہی
بس اس کی سزا ہے