Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Na Sar Jhukain, Na Hath Joren

Na Sar Jhukain, Na Hath Joren

نہ سر جھکائیں، نہ ہاتھ جوڑیں

عورت مارچ ان خواتین کے نام جو مساوات، تنوع، اور شمولیت کے لیے آواز بلند کرتی ھیں اسی لئے اس سال کی تھیم "خواتین کو آگے لاؤ، ترقی کی رفتار بڑھاؤ " رکھا گیا ہے۔

پھر آن پہنچا ہے وہ دن جس سے ہمارے پدر شاہی معاشرے کی راتوں کی نیندیں حرام ہیں۔ حیرانی سی حیرانی ہے کہ، ایک دن، فقط ایک دن عورت کے نام ہوجانے پر صدیوں سے عورت کے حقوق پر قابض ٹولے کو اس ایک دن منانے سے خوف محسوس ہوتا ہے؟

خوف بھی ایسا کہ مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی عورت مارچ کرنے پر پابندی لگانے اور نعروں پر فتوے دینے جیسے حربے زورو شور سے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے عورت پر تسلط بنائے رکھنے کے لئے پدر شاہی معاشروں کو کتنا کم ظرف اور نیچے گرنا پڑتا ہے اس کی مثال اپنی مثال آپ ہی ہے۔ پر کیا کیجئے کہ یہ مرد کا محبوب ہتھکنڈا جو رہا ہے۔ عورت مرد کے بنائے جائز نا جائز اصولوں پر ہر بار اس آس میں سر تسلیم خم کرتی آئی کہ شاید یہ مخالف جنس کا اسکی شخصی آزادی پر آخری وار ہو۔

لیکن طاقت اور حکمرانی کی ہوس ہے کہ مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اب مردانگی کا رعب دبدبہ صرف اپنے گھر کی عورتوں تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ مردانگی کا عفریت اب سماج کی تمام عورتوں کو سدھارنے، ان کا قبلہ درست کرنے کا ٹھیکیدار بن بیٹھا ہے۔

عورت کو کیا پہننا ہے کیا نہیں، کس سے بات کرنی ہے کس سے نہیں، کیسے چلنا ہے، کیسے بیٹھنا ہے، کتنا ہنسنا ہے اور کتنا اونچا ہنسنا ہے۔ کتنا پڑھنا ہے اور کب ترک کردینا ہے اور کس عمر تک بیاہ دیا جانا ہے۔۔ یہ تو بچی کی پیدائش پر ہی گھر کے افراد طے کر دیا کرتے تھے۔

لیکن اب راہ چلتے، بازاروں میں پھرتے، درسگاہوں، آفسوں میں بیٹھے خود اپنے رستے سے بھٹکے ہوئے افسران سے لے کر چپراسیوں تک نے عورتوں کو صراط مستقیم پر چلانے کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔ عورت کو یہ باور کرانے کے لئے کیسے کیسے وطیرے بنائے جاتے ہیں۔

اے ناقص العقل عورت سر دوپٹے سے ڈھانپ کر رکھ، بے کار کے فلسفے نہ بگھار، قدرت کے عطا کردہ نشیب و فراز سے شرم محسوس کر، اسے خود سے بھی چھپا کر رکھ۔

بے شک تو علم و فضل کے جھنڈے گاڑھ لے، سینکڑوں تعلیمی اسناد سے مالا مال ہو جا یا اعلی مسندوں پر فائز ہو جا، رہے گی تو ہم سے کم تر ہی کہ اب ہم سربازار تیری پسند کے زیب تن کئے لباس کو مقدس زبان کی توہین کرنے کے زمرے میں لا کر تجھے جلا کر راکھ بھی کر سکتے ہیں۔

کہ اب ہم تیری بازار ہی نہیں ریاستی ایوانوں میں بھی بولی لگانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کہ اب ہم حکومتی اداروں کے ممبروں پر بیٹھ کر تجھے گدھ کی طرح ایک ہی رات میں بھمبھوڑ کر، نوچ کر، چیر پھاڑ کر ادھ موا کرنے کی کھلے عام دھمکی دے سکتے ہیں۔

اے کم عقل مخلوق کیونکہ قصور سراسر تیرا ہی ہے کہ تو نے بلندی پرواز کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجا لئے ہیں۔ تیری یہ مجال کہ گھر کی چار دیواری عبور کرے؟ تعلیم کی دل میں جستجو رکھے؟ اپنے ذہنی شعور کی نشونما کرے؟ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرے؟ اپنے مستقبل کو روشن کرنے کی آرزو رکھے؟ خود کے لئے اپنی پسند کا ہم سفر چنے؟ اپنے جسم پر اپنی بالادستی کی بات کرے؟

آگہی کا مان لئے مرد کی حاکمیت کو للکارنے کے خواب دیکھے۔

کیا ہم مردوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں؟ عورت کا یہ روپ پدر شاہی سماج کے وارے نہیں آتا۔ ان فتنہ پرور عورتوں کو یہ شر پھیلانے سے روکو۔ بے شک اس کے لئے ہمیں وحشی ہی کیوں نہ بننا پڑے۔

عورت مارچ کو مذہب کا لبادہ پہناؤ۔

اسے مغربی ایجنڈا ثابت کرو۔

میرا جسم میری مرضی کو مادر پدر آزادی اور فحاشی سے تعبیر کرو۔

درسگاہوں کو جسم فروشی کا گڑھ بنا کر پیش کرو۔ ملازمت کے لئے سخت اصول مرتب کرو۔

بچوں کی پیدائش پر خدا کی مرضی کے فتوے لگاؤ۔

اسقاط حمل کو انسانی المیہ سے تشبہہ دو۔

پسند کی شادی پر خاندانی روایات توڑنے کی دھمکی سناؤ۔

عزت و ناموس کے جھنڈے تلے کاروکاری، ونی کا خونی کھیل بے دریغ کھیلو۔

وراثت سے دستبردار کرنے کی مکارانہ چالیں چلو۔

بوسیدہ روایات کو ازسرنو تعمیر کرو۔

ہر وہ حربہ آزماؤ ہر وہ داؤ پیچ لڑاؤ جس سے عورت ہم سے برابری کی گستاخانہ فرمائش نہ کر پائے۔

سمجھتے کیوں نہیں ہو؟ عورت یہ تمام حقوق مانگنے پر گناہ کی مرتکب ہورہی ہے۔ عورت تو ازل سے گناہ کی پوٹلی ہے جسے ہم مردوں نے سدھار کر رکھا ہے۔

لیکن کیا اس بار بھی عورت مرد کے بنائے اصولوں کے سامنے لڑکھڑا جائے گی؟ کیا پھر سے اس کے دام میں آجائے گی؟

نہیں اب نہیں۔۔ اے نئی عورت اب ان حربوں اور داؤ پیچ کو خوب سمجھ کر چل۔ اپنے حقوق کی پاسداری پہلے سے بہتر جان کر چل۔ علم و آگہی سے خود پر لگا ناقص العقل کا داغ مٹانے کے ہنر آزما۔ اپنے زور بازو پر بھروسے کی قائل رہ۔ اپنے اور خاندان کی کفالت کے بوجھ اٹھا کر دکھا۔ مرد کے شانہ بشانہ چل کر دکھا، اپنے فیصلے خود کر، ہر میدان میں ڈٹ کر کھڑی رہ، اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے ثابت قدمی کو اپنا نصب العین بنا۔ انکار کرنے کی جرات پیدا کر۔ ہر حکم پر سر جھکا کر " ہاں" کرنے کے بجائے " ناں"کہنا بھی سیکھ۔ اپنی جسمانی ساخت پر شرمندہ ہونا بند کر۔ اپنے تخلیق کار ہونے پر فخر کر۔

بے شک۔۔ یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں

کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے

تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گی

کہ اب جو دیوار گر چکی ہے

اسے اٹھانے کی ضد نہ کرنا!

یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں

جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں

نہ جان بیچیں

نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں!

بہ شُکریہ: DW

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo