Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Cancer Ward

Cancer Ward

کینسر وارڈ

"کل آپ آرہی ہیں نا صنوبر، کیو بی ایس ہوم؟"

"ہاں ضرور! میں وقت پر پہنچ جاؤں گی"۔

"تھینک یُو یار"، اسما نے اپنائیت سے کہا اور کال بند ہوگئی۔

مگر جیسے ہی فون کی سکرین بجھی، میرے ذہن کی کتاب کے پنّے خود بہ خود ماضی کی طرف پلٹنے لگے۔

***

بھرے پُرے گھر میں ایک انجانی سی اداسی کا بسیرا تھا۔ ڈرائنگ روم میں سب کے بولنے کے باوجود موت کا سا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔۔ کسی بڑے سانحے کے بعد کا سناٹا۔

اس ماحول میں اسما تھی جو اپنے برجستہ جملوں اور کھنکتی ہنسی سے بوجھل فضا کو کچھ لمحوں کے لیے ہلکا ضرور کر دیتی، مگر یاسیت کے بوجھ کو کم کرنے میں پوری طرح ناکام۔

تیکھے نین نقش اور سانولی سلونی رنگت والی اسما مجھے پہلی ہی ملاقات میں دل کو بھا گئی تھی۔

میں نے آہستہ سے کہا، "اتنا خوب صورت گھر، لیکن ایسی ویرانی اور سناٹا؟

میرے شوہر کے جواب نے مجھے ساکت کر دیا۔

"جوان موت پر ایسی ہی ویرانی چھا جاتی ہے"۔

***

"آج شام کی فلائٹ سے ہم پنڈی جا رہے ہیں، قاسم کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے"۔ ابو نے ہمیشہ کی طرح تحمل اور وقار سے ہمیں خبر دی۔

19 دسمبر 1988 کو جب ہم سب سی ایم ایچ پنڈی میں بھائی جان کے کمرے میں داخل ہوئے تو انہوں نے ہم پر ایک نگاہ ڈالی۔۔ ہلکی سی۔۔ مگر سب کچھ سمجھ لینے والی اور جیسے دل ہی دل میں اعتراف کر لیا کہ "مجھے کسی بڑے مرض نے آ لیا ہے"۔

"قاسم بن سعادت"چار بہنوں کا اکلوتا بھائی، بڑی آپا سے چھوٹا اور ہم تینوں بہنوں کے بھائی جان۔ انیس برس کا خوبصورت، شوخ مزاج، باتوں میں ہنسی بکھیر دینے والا، بہترین کھلاڑی، زندہ دل نوجوان، قاسم۔

میڈیکل کالج کا دوسرا سال چل رہا تھا۔ قاسم کو رفع حاجت میں کئی ماہ سے تکلیف تھی، مگر کم عمری کی جھجھک، شرم اور نوجوانی کی لاپرواہی نے اسے کبھی معاملے کو سنجیدگی سے لینے نہ دیا۔ جب تکلیف برداشت سے باہر ہوئی تو بالآخر ہسپتال گیا۔

"تمھارے معقد میں کومن ایبسیس (common abcess) ہے، میں اسے ابھی ڈرین (drain) کر دوں گا"، ڈاکٹر نے پُر اعتماد لہجے میں کہا۔

اگلے ہی روز بغیر کسی کلچر یا ٹیسٹ کے قاسم کا ایک معمولی سا آپریشن کر دیا گیا۔ مگر اس کے بعد تکلیف کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی۔

"مزید ڈریننگ کی ضرورت ہے، ایک اور آپریشن کرنا پڑے گا"، ڈاکٹر نے دوبارہ وہی پُراعتماد جملہ دہرایا۔

دوسری بار پھر معقد کی چیر پھاڑ کی گئی، مگر اس بار بھی کوئی واضح زخم یا پھوڑا نظر نہ آیا۔ کاٹنے پیٹنے کے اس بےسمت عمل کے بعد ڈاکٹر کو یکایک خیال آیا کہ بائیپسی بھی کروالی جائے۔

رپورٹ جو آئی، وہ کسی بم کی طرح ہم سب پر یکبارگی آ گری۔ ایسی خبر جس نے ہمارے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی۔

بھائی جان کو (Rhabdomyo Sarcoma) معقد کے عضلات کا سرطان لاحق تھا، وہی مہلک مرض جو بےمحابا چیر پھاڑ اور غلط طریقے سے چھیڑنے پر اور تیزی سے پھیل جاتا ہے۔ یوں ناسمجھی، غفلت اور غلط علاج نے قاسم کی بیماری کو بھڑکا کر ہمیں ایک ایسے المیے کے سامنے لا کھڑا کیا جس کا تصور بھی ناقابلِ برداشت تھا۔

ابو نے بغیر کسی تاخیر کے لندن کی فلائیٹ بک کروالی، کیونکہ وہاں ہمارا ددھیال تھا اور آپا اپنے شوہر کے ساتھ وہیں مقیم تھیں۔ بائیس دسمبر کو جب ہم لندن پہنچے تو شہر دلہن کی مانند دمک رہا تھا، کرسمس کی چمک ہر سمت پھیلی ہوئی تھی۔ باہر رنگ و نور کا میلہ تھا اور ہم سب کے دل کے اندر ماتم برپا تھا۔

بھائی جان کو اگلے ہی روز رائل مارسیڈن کینسر ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے گہری سنجیدگی سے کہا: "قاسم کے زخم کو نہایت غیر پیشہ ورانہ اور غیر ذمہ دارانہ انداز میں چھیڑا گیا ہے، بالکل ایسے جیسے کسی اناڑی قصائی نے بےدھڑک چیر پھاڑ کر دی ہو"۔

"قصائی بھی جب گوشت کی بوٹیاں بناتا ہے تو چربی، ہڈی اور ریشوں کو ایک ترتیب اور نفاست سے الگ کرتا ہے"۔ میں نے سوچا۔

بھائی جان کا علاج شروع ہوا اور پورا ایک سال چلتا رہا۔ کیموتھراپی، اسٹیروئیڈز اور دوسری دواؤں نے اُن کا جسم بدل کر رکھ دیا تھا۔ پیٹ پھول گیا تھا اور باقی وجود جیسے سُکڑ کر رہ گیا ہو۔ پہلے والے وجیہ و حسین قاسم کی شکل و صورت میں کچھ بھی پہلے جیسا نہ بچا تھا، سوائے اُن کی ہنسی اور پھڑکتی ہوئی حسِ ظرافت کے۔

جب بھی میں بھائی جان کی عیادت کے لیے کینسر ہسپتال جاتی تو وہاں اس مرض میں مبتلا مریضوں کو دیکھ کر وکرم سیٹھ کی نظم "کینسر وارڈ" کے یہ اشعار ذہن میں گھومنے لگتے۔

"یہ وہ مریض ہیں جن کی گفتگو میں مستقبل کا زمانہ نہیں ہوتا"۔

سن 1989 کے دسمبر میں جب بھائی جان کی طبیعت میں کچھ بہتری آئی تو ہم نے کراچی واپسی کی راہ لی۔ انہوں نے پھر سے اپنی پڑھائی اور فٹنس پر توجہ دینی شروع کی اور دوبارہ راولپنڈی میڈیکل کالج پہنچ گئے۔ پڑھائی ہو یا اسپورٹس، بھائی جان دونوں میں ہمیشہ بہترین رہے، مگر شاید آنے والے بُرے وقت کی آہٹ ان کی چھٹی حس پہلے ہی سن چکی تھی۔

دسمبر 1990 کی ایک سرد رات تھی۔ ہم کراچی سے پنڈی بھائی جان سے ملنے آئے ہوئے تھے۔

"قاسم، اس بار تمہاری ڈسٹنکشن آنی چاہیے"، ابو نے محبت اور امید بھرے لہجے میں کہا۔

بھائی جان ہلکے سے مسکرائے اور دھیمے لہجے میں بولے: "شاید اس کی نوبت ہی نہ آئے"۔

ہم سب جیسے ایک لمحے کو پتھر کے ہو گئے۔

پھر 8 مارچ 1991 وہی منحوس خبر لے کر آیا۔ بھائی جان کا کینسر بے رحمی سے لوٹ آیا تھا، پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ۔ دوبارہ سامان باندھا گیا اور ایک بار پھر لندن کا سفر شروع ہوا۔

معائنے کے دوران بھائی جان نے بے ساختہ ڈاکٹر سے پوچھ لیا: "ڈاکٹر، میرے پاس کتنا وقت ہے؟"

ڈاکٹر نے فائل سے نظر اٹھائی، گہری سانس لی اور پختہ لہجے میں کہا: "تقریباً دو مہینے"۔

ہم پر بجلی سی گر گئی۔

کس بے دردی سے قدرت کی ستم ظریفی اور ہمارے ہی ہسپتال کے عملے کی نالائقی نے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

"ہائے، سعادت۔۔ اللہ نے ایک ہی بیٹا دیا تھا، اُسے بھی اتنی جلدی اپنے پاس بلا رہا ہے۔ اب کون تمہاری نسل آگے بڑھائے گا؟"

"یقین نہیں آتا، یہ وہی خوب صورت قاسم ہے، اللہ کسی والدین کو اولاد کا یہ دن نہ دکھائے"۔

"بیٹیاں تو اپنے گھروں کی ہیں ایک قاسم ہی تھا جس سے خاندان کا نام آگے چلتا۔۔ ہائے کیا ستم ظریفی ہے قدرت کی"۔

مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ عیادت کے لیے آتے ہیں یا ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے۔ ہر جملہ ایک خنجر کی طرح لگتا تھا۔

ایک روز بھائی جان نے امی سے دبے لہجے میں کہا: "امی، میں اب مزید رشتہ داروں کے گھر میں نہیں رہ سکتا۔ وہ مجھے ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے میں کوئی بےچارگی کا تماشا ہوں۔ مجھے کسی کینسر کے ادارے میں داخل کروا دیں جہاں میں اپنے جیسے مریضوں کے درمیان اپنی باقی زندگی کچھ عزت سے گزار سکوں"۔

چند ہی دنوں میں بھائی جان کی خواہش کے مطابق انہیں مائیکل سوبیل ہاؤس منتقل کردیا گیا۔ وہاں جاتے ہوئے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم اپنے پیارے کو آہستہ آہستہ زندگی کے آخری دروازے تک چھوڑنے جا رہے ہوں۔

پہاڑی پر واقع یہ ادارہ ایک پرسکون آسائش گاہ تھا، جہاں عملے کا ہر فرد صرف مریض ہی نہیں، بلکہ اُن کے چاہنے والوں کو بھی خلوص اور محبت سے سنبھالتا تھا۔ بھائی جان اب چلنے پھرنے سے معذور ہو چکے تھے اور روز سہ پہر اپنی ریموٹ کنٹرول پارکنسن چیئر پر بیٹھ کر لان کے آخری سرے تک جاتے اور بلوط کے گھنے درخت کی چھاؤں میں وہ گھنٹوں خاموشی سے بیٹھے رہتے۔۔ جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔

آج یکم جون 1991 تھی۔ بھائی جان ہمیشہ کی طرح درخت کے سایے تلے بیٹھے تھے اور امی اُن کے پاس خاموش کھڑی تھیں۔ اچانک بھائی جان نے تھکے ہوئے لہجے میں آہستہ سے کہا:

"امی، میں تیار ہوں"۔

میں نہیں جانتی وہ لمحہ میری ماں پر کتنی صدیاں بن کر گزرا ہوگا۔

اگلے ہی روز، بڑی نرمی سے، بھائی جان کی روح اپنے جسم سے پرواز کر گئی۔

***

میں "قاسم بنِ سعادت ہوم فار امیزنگ کِڈز" (QBS) میں اپنی دوست اسما کو بغور دیکھ رہی تھی۔ وہی اسما جس نے اپنے بھائی کی یاد میں صرف آنسو بہانے پر اکتفا نہیں کیا۔ اُس نے اپنے دکھ کو قوت بنایا اور اپنے بھائی کے نام پر ایسا فلاحی ادارہ قائم کردیا جو آج سینکڑوں نادار اور محروم بچوں کی زندگیوں میں امید اور روشن مستقبل کی کرن بن چکا ہے۔

قاسم بنِ سعادت کا نام، مر کر بھی زندہ ہے۔

آج اس فلاحی اسکول کے قیام کو پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ اسکول بحریہ انکلیو اسلام آباد کے مضافاتی گاؤں میں واقع ہے جس کا نام ذخیرہ ہے۔ یہاں کی کی بیشتر آبادی غربت کا شکار ہے، ایسے گھرانے جن کے پاس نہ بچوں کو پڑھانے کی استطاعت ہے نہ ان کی مناسب تربیت کے لیے وقت۔

اسما اور ان کی ٹیم نے ان بچوں کی تعلیم، کردار سازی اور عملی تربیت کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے اور اسے نہایت محبت، دانائی اور خلوص سے نبھا رہی ہے۔

کون کہتا ہے کہ بیٹا نہ رہے تو نسل ختم ہو جاتی ہے؟

نیکی اور بھلائی کی نسل تو دلوں میں پروان چڑھتی ہے اور وہ نسل کبھی ختم نہیں ہوتی۔

بہ شُکریہ: وی نیوز

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali