Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sana Hashmi
  4. Churiyan Chupa Kar Rakhti Hoon

Churiyan Chupa Kar Rakhti Hoon

چھریاں چھپا کر رکھتی ہوں

ویسے تو ہم معاشرتی طور پر کافی بے حس ہیں، بہت کچھ بھول جاتے ہیں بہت کچھ سہ جاتے ہیں، قصور کی زینیب سے لیکر انگنت پہلے اور بعد میں ریپ کی جانے والی معصوم بچیاں، عورتیں، روز کسی نا کسی درندے کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کہوں اور لکھوں، ایسا بے رحم معاشرہ۔۔۔ انسان تو انسان جانور بھی بے اماں ہوگئے، انکو تو بس نبض چلتی ہوئی ملنی چاھئے، پھر وہ کوئی بچی، لڑکی، عورت، یا کوئی عمر ریسدہ ہو، یا پھر بکری ہی کیوں نا ہو۔۔ لکھتے ہوئے کی بورڈ پر ایک لمحے کو ہاتھ ہی رک جاتا ہے کہ میں کیسے لکھ سکتی ہوں اتنی بربریت کو، لیکن جو کچھ ہو رہا ہے اس پر زبان بندی نہیں ہو سکتی، وزیر اعظم نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہہ دیا کہ ریپ ہونے والا شخص کا قصور نہیں ریپ کرنے والا سزا کا مستحق ہے، لیکن اس معاشرے میں روبوٹ کی اصطلاح بھی وزیراعظم نے جب استعمال کی جب یہاں مسلسل ریپ کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، اس ریپ کو ریپ ہی کہا جائے تک، جب یہ لفظ ادا ہو تو اسکی بے بسی اور تکلیف کا اندازہ ہو، یہ وہ معاشرہ جس میں قبریں کھود کر ریپ ہوئے ہیں، یہ کونسے جنسی ہوس کے مارے ہیں، کہ نا بکری چھوڑیں، نا مری عورت کو بخشیں، نا معصوم بچیوں کا لحاظ کریں، یہ پردہ بے پردہ، ہرعورت کو ایک طرح دیکھتے ہیں، مگر میرا سوال ہے کیوں؟ کیا وجوہات ہیں کہ یہ کیسز بڑھ رہے ہیں، کراچی سے اسلام آباد اور پھر ملک کا کوئی ایک شہر اور علاقہ نہیں جہاں عورتیں محفوظ ہوں۔

وہ ظاہر جعفر اپنے اقبال جرم میں کہہ رہا ہے کہ(نور مقدم بے وفائی کررہی تھی ، تو برداشت نہیں کرسکتا تھا) شرم اور لحاظ کا اگر رتی برابر بھی مطلب آتا ہے تو شرم سے ڈوب مرنا چاھئیے، ظاہر جعفرکے والد اور والدہ کو بھی، اور ان تمام لوگوں کو جنھوں نے اس منظر کے سامنے خود کو بےبس بنائے رکھا، عورت کو مار دو کسی بھی نام پر اپنی ہوس پوری کرو، اپنی تسکین پوری ہو چاھئے پھر کسی کی گردن کاٹ کے اسکے دھڑ سے جدا کروں اور کہوں بے وفائی کا بدلا ، ایسے مرد ہونے پر تفف ایک نہیں ہزار بار، لفظ نفرت بہت قبیح ہے، لیکن جو یہ سب کر ہے ہیں وہ اس لفظ سے زیادہ کے حق دار ہیں ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص ذہنی مریض تھا اس لیئے ایسا کر گیا ، جنسی ہوس کا غلبہ تھا اس لئے ریپ ہوگیا ، میں ان سے سوال کرتی ہوں، کیا آپ ان لفظوں سے مجرمان کے حق میں آواز بلند کرکے کیا ثابت کرنا چاھتے ہیں؟ میں ایسے اشخاص کو جانتی ہوں جو اپنے گھر والوں کے لئے کسی اذیت سے کم نہیں، انکی مائیں بہنیں ہر وقت انکی موت کی دعا کرتی ہیں، کیوں انھوں نے اپنے گھر میں لوگوں کی زندگی حرام کر رکھی ہے، شادی کی تو بیوی کے ساتھ وہی جاہلانہ سلوک ، ایک ماں نے مجھے کہااپنے بیٹے سے گھر میں چھریاں چھپا کر رکھتی ہوں ڈر ہے کہ کہیں ہمیں مار ہی نا دے ، اس ماں کی بے بسی کا تصور کوئی کرسکتا ہے جو اپنے کوکھ سے جنم دینے والے سے ڈرتی ہو، اس ماں کے ان لفظوں نے میرا جسم تھرا دیا تھا ، لیکن یہ سچ ہے کہ اس ظالم اسی دنیا میں رہتے ہیں، آپکے گھر میں پل رہے ہوتے ہیں لیکن شاید نظر نہیں آتے نظر جب آتے ہیں جب کوئی حادثہ ہوجائے ایسے مرد ہونے کے دعوے داروں کو آپ کیا کہیں گے؟

ہم سہم گئے ہیں کیسے گزاریں زندگی کس سے کہیں کہ ہماری حفاظت کرو، عورت ہونا کیوں جرم ہے، کیوں ماں بہن بیٹی، بیوی گالی بنا دیا ایسے خبیث لوگوں نے، آج جب دفتر آئی تو معلوم ہوا کہ ایک اور گھر کی معصوم ماہم کو اغوا کیا گیا، اسکا ریپ کیا گیا، ایک زیادہ لوگوں نے اور پھر نعش کچرے کے ڈھیر پر پھینک دی ، ہر روز ایسے واقعات ذہنی ازیت اور تکلیف سے دوچار کرتے ہیں ، لاکھ بلز اور قوانین بن جائیں، میرے نزدیک یہاں مرد کا راج اتنا مضبوط ہے کہ اسکے آگے ہر قانون اور اسکی گرفت بہت بہت کمزور ہے، اور ریاست بھی شاید اس سنگینی کو سمجھنے سے قاصر ہے بولتےبولتے گلا سوکھ گیا ایسا لگ رہا تھا کہ میں چیخ رہی ہوں اور کوئی سنتا ہی نہیں لیکن اگلے کسی واقعہ کا انتظار اور پھر یہی کرب کی داستان تک کے لئے اجازت۔

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi