Jinsi Istehsal Se Bachon Ki Hifazat (2)
جنسی استحصال سے بچوں کی حفاظت (2)
گذشتہ تحریر میں کچھ ایسی نمایاں علامات کاذکر کیا گیا تھا جو جنسی ہراسگی کی صورت میں بچوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور لاعلمی کی وجہ سے اکثر والدین نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ان سطور میں کچھ ایسے پہلوؤں کا ذکر کریں گےجنہیں مد نظر رکھ کر بچوں کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ تحقیقات کے مطابق ٪50 کیسز میں یہ ظلم چار دیواری کے اندر ہوتا ہے اور ایسے افراد کے ہاتھوں ہم جن پر بھروسہ کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اپنے گھر محفوظ و مامون جگہ بنائیے، ایسی جگہ جہاں رہنے والے خود کو بہترین ماحول میں محسوس کریں۔ اب اس سے مراد آسائشات سے مزین کوئی لگژری جگہ نہیں ہے بلکہ محبت، اعتماد، اعتبار اور توجہ سے چمکتا دمکتا گھر ہے۔ جو دیکھنے میں گو سادہ ہی ہو لیکن اس کے مکین با ہمی تعلقات میں پرُباش ہوں، جہاں موجود افراد ایک دوسرے کی بات سنتے سمجھتے اور اعتبار کرتے ہوں۔ اکثر متاثرین بچے خود کو گناہ گار اور برا سمجھنے لگتے ہیں۔ احساسِ گناہ اور احساسِ جرم کی وجہ سے وہ یہ بات بیان کرہی نہیں پاتے۔ اکثر اوقات والدین کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ایسی صورتحال میں رد عمل کیسے دینا ہے، یہ مشکل اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ظالم گھر کا کوئی فرد یا قریبی رشتہ دار ہوں۔
عموماً بچوں کی بات سنی ہی نہیں جاتی، والد صاحب مارپیٹ سے بھی گریز نہیں کرتے، خوف کی فضا میں کچھ پنپ نہیں پاتا، اپنے بچوں سے احترام کا رشتہ استوار کیجئے نہ کہ خوف کا۔ بچوں سے بات کریں، ان کے سب سے اچھے راز دار بن جائیں انہیں اعتماد دلائیں کہ ہر مشکل میں وہ آپ پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔ ہمدری، نرمی، شفقت اور اعتماد اگر والدین سےنہیں ملتا تو بچے باہر تلاش کرتے ہیں اور نتیجہ جسمانی، جذباتی، جنسی استحصال کی صورت میں نکلتا ہے۔ بچوں کو ایسی صورتحال کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھیں، جنسی عمل کو گہرائی سے بتانے سے گریز کریں لیکن انہیں یہ ضرور بتائیں کہ جسم کے پوشیدہ حصے کپڑوں کے اندر رہنے چاہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے پرائیوٹ پارٹس کی اصطلاح رائج ہے۔ اس اصطلاح کو اردو میں استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بچوں کو بتائیے کہ پرائیوٹ پارٹس پر کوئی ہاتھ لگانے کی کوشش کرئے یا ایسا کرنے کو کہے تو وہاں سے بھاگ جانا ہے، گھر کے بڑوں کو بتانا ہے اور خود کوبے بس محسوس نہیں کرنا۔ اگر کوئی ایسی بری حرکت کرےاور خاموش رہنے کو کہے تو ہرگز ایسا نہیں کرنا بلکہ اپنے بڑوں کو فوراً بتا دینا ہے۔ بچوں سے بار بار بات کیجئیے اور سمجھائیے کہ اگر کوئی والدین سےکوئی بات چھپانے کا کہے تو وہ ہرگز آپ کا دوست نہیں ہو سکتا، والدین کو ہر بات ضرور بتانی چاہیے خواہ غلطی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، والدین آپکی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
صورتحال تب زیادہ خراب ہوتی ہے جب والدین نہ ہوں یا بچہ ٹوٹے ہوئے خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ ایسے بچے پہلے ہی جذباتی توڑ پھوڑ کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں نشانہ بنانا زیادہ آسان ثابت ہوتا ہے۔ ایسے میں والد یا والدہ کے ساتھ ساتھ قریب موجود دوسرے افراد کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ جنسی ہراسگی اوراستحصال ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نپٹنا سب کی مشتر کہ ذمہ داری ہے۔ بچوں کے معمولات پر نظر رکھیں۔ بچہ کس وقت کہاں ہے کن افراد کے ساتھ زیادہ وقت گزار رہا ہے۔ کسی کے ساتھ ضرورت سے زیادہ مانوس تو نہیں ہو رہا، کسی سے بچنے کی کوشش تو نہیں کر رہا، یہ سب باتیں نظر میں رکھیں۔ اگر کبھی بچہ خوفزدہ دکھائی دے یا کسی سے بچنے کی کوشش کر رہا ہو تو بچے سے بات کریں اور شکایت کی صورت میں بچے پر سختی کرنے کی بجائے شفقت کا مظاہرہ کریں اور تحمل سے بچے کا مسئلہ سنیں۔
بعض اوقات مائیں بات کو نظر انداز کردیتی ہیں یا بچے کی بات پر یقین نہیں کرتیں، دونوں رویے ہی غلط ہیں۔ بحیثیت والدین ذمہ داری بہت زیادہ احتیاط کا تقاضہ کرتی ہے۔ بچوں کو تحفظ کا احساس دلائیں۔ ٹین ایجرز ایک مختلف تجربے سے گذرتے ہیں۔ فطری طور پر ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہوتی ہیں جو انہیں کچھ الگ قسم کے تجربات سے گذارتی ہیں۔ اور یہ ہر بچے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ٹین ایجرز کو اگر گھر میں کھلی آزادی ہے اور ان کے معمولات پر نظر نہیں رکھی جا رہی یا مناسب اور اصولی روک ٹوک نہیں تو مسائل زیادہ شدت سے ابھرتے ہیں۔ بچے فطری طور پر مخالف جنس میں کشش محسوس کرتے ہیں وہ بہت جلد اس جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں بچہ انٹرنیٹ کا استعمال بڑھا دیگا، راتوں کو دیر تک جاگنا، روکھا پن اور بیزاری وغیرہ ایسی علامات ہیں جن پر والدین کو محتاط ہونے کے ساتھ ساتھ خبردار بھی ہو جانا چاہیے۔
اگر بچہ یا بچی خصوصاً ٹین ایجر اچانک تنہائی پسند ہوگئے ہیں یا ایک دم کسی دوست یا سہیلی کے ہاں آمد و رفت بڑھا دی ہے تو یہ بھی خطرے کی گھنٹی ہے، اپنی تھوڑی سے فراغت کے لیے بچوں میں آنے والی تبدیلی نظر انداز مت کریں بچوں کے کپڑوں کا خصوصی جائزہ لیتے رہا کریں۔
بے محابہ آزادی بھی اتنی ہی بری چیز ہے جتنی کہ بے جا سختی۔ یاد رہے ہم سے ہماری ذمہ داریوں کے متعلق سوال ہوگا اور ہمارے بچے ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہیں۔ اپنے بچوں کو کسی کے بھی گھر رات رکنے کی اجازت کسی صورت مت دیں، مسئلہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو کوشش کریں بچے نظر کے سامنے رہیں۔ ہر بار استحصال جبر سے نہیں ہوتا، ذہنی مریض آپ کے بچے کو ورغلا بھی سکتے ہیں۔ اور آپ کا بچہ آپ سے نہ صرف جھوٹ بول سکتا ہے بلکہ اس ساری کا روائی کا باقاعدہ فریق بھی ہو سکتا ہے یعنی ضروری نہیں ہمارا بچہ ہر بار مظلوم ہی ہو۔ بچوں کے دوستوں سے ملتے رہیں معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کی اہم وجہ خاندانی اکائی کا بکھرنا ہے۔ اکثر ہماری اَنا ہمارے گھر توڑ دیتی ہے۔ اپنے گھروں کا خیال رکھیے، یہ آشیانے خونِ جگر سے سینچنے پڑیں تو بھی اِنہیں محفوظ بنائیے، آپ کی آج کی توجہ، محنت اور محبت آپ کا کل محفوظ بنادے گی۔