Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Salma Latif/
  4. Imran Khan Ke 4 Ehsanaat

Imran Khan Ke 4 Ehsanaat

عمران خان کے چار احسانات

سیاست کے اس گرما گرم موسم میں عمران کا طرزِ سیاست نظریۂ ضرورت کی جامع اور مفصل تشریح ہے جو کہ صرف ان کے لیے درست ہے۔ کیونکہ ہم بھی پاکستانی ہیں تو اس زبردست دوربین شخص کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں جو تغیر و تبدل آیا ہے اس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ ویسے تو احسانات کی فہرست کافی طویل ہے لیکن ہم یہاں محض اُن چار کا ذکر کریں گے جن کی وجہ سے پاکستانی سیاست میں ایک نئے عہد کا اضافہ ہوا۔

ایک ایسے سیاسی کلچر نے جڑیں پکڑیں جس کی وجہ سے نہ صرف مقتدر طبقے میں تحیروتبدّل کی لہر آگئی بلکہ خواتین بلخصوص اور نوجوان بالعموم مستفید ہوئے۔ عمران خان کا سب سے بڑا احسان بدتمیزی اور بدتہزیبی کو ضرورت قرار دیئے جانا ہے۔ ننگی حقیقت کی طرح بے رحم اور بدلحاظ، بدصورت زبان کا استعمال جس تواتر سے عمرانی دور ِ سیاست میں جاری و ساری ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔

اس کی خوبی یہ ہے کہ اب سبکو سمجھ آگئی ہے کہ گالی دئیے بغیر ہماری بات میں وزن پیدا نہیں ہوسکتا۔ شائستہ زبان ایک بلیغ استعارہ ہے اور اس کا عمرانی طرزِ سیاست سے کوئی واسطہ نہیں لہذا ہمیں سمجھنا چاہیے کہ فحش گوئی کی حدتک راست حملے عمرانی طرز کا طرۂ امتیاز ہیں۔ کسی کو مرنجانِ مرنج کہہ دینا کبھی مہذب طریقے سے شریف، کم گو اور جسمانی طور پر کمزور گردانا جاتا ہے لیکن ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ اب اس کے لیے ککڑی، بھنڈی وغیرہ بہتر الفاظ ہیں۔ اور یہ تربیت اپنے گہرے اثرات معاشرے کے تمام پہلوؤں پر چھوڑے گی۔

عمران خان کا دوسرا بڑا احسان ہم پر یہ ثابت کرنا ہے کہ نظریۂ ضرورت ایک بہت اہم چیز ہے اس کے لیے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہ دینا اور کہتے رہنا حتٰی کہ اسے تسلیم کرلیا جائے، دراصل ضروری فن ہے جس میں کمال حاصل کیے بغیر پاکستان میں کم از کم کوئی کلیدی کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے۔ آپ کو ضرورت پڑے تو آپ جانور کو باپ بنالیں، جانور لاتیں مارنا شروع کردے تو اسے جانور کی جگہ پر رکھیں بلکہ باندھ کر تبراً جوتے بھی برسائیں تا کہ اسے سمجھ آئے کہ وہ جانور ہے۔ پھر دوبارہ ضرورت پڑنے پر اسکی کمر پر ہوسکے تو پاؤں پر بھی ٹھنڈے ہاتھ پھیریں اور اپنی ہی بات کی کوئی نئی تشریح کردیں اور مطلب نکالیں، کام ہونا چاہیے خواہ کچھ بھی کرنا پڑے، یہ ایک ایسا فن ہے جسے اب ہم سب سیکھ سکتے ہیں۔

عمران صاحب کے تیسرے احسان تلے ہم سب بےغیرت، غدار اور وطن فروش ہیں۔ کسی کی عزت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کم ظرف کو عزت ملے تو وہ سنبھال نہیں پاتا، نہیں نہیں یہاں مراد عمران خان نہیں بلکہ ہم اور آپ ہیں۔ عمرانی معاشرے میں عزت کا حقدار صرف وہ ہے جو اس مغرور اور متکبر شخص کے سامنے بچھ بچھ جائے اور اگر وہ چاہےتو لیٹ بھی جائے (ہماری مراد، مراد سعید والا لیٹنا ہر گز نہیں) تاکہ بادشاہ سلامت حظ اُٹھا سکیں اور تازہ ہو کر دوسرے اہم معاملات سے نبرد آزما ہوں۔

عمران صاحب نے ہمیں سمجھایا کہ ہمیں اپنی اوقات میں رہنا چاہیے اور عزت وغیرہ جیسے چکروں سے دوررہ کر ان کی ایجاد کردہ جھوٹ کی پُڑیاں نگل کر اگلے حکم کا انتظار کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہی زندگی کا اصل مقصد ہے، اپنے اس مقصد سے ہٹنے والا سیدھا ٹرولنگ کے اس گڑھے میں پھینک دیا جائے گا جہاں دیہاڑی دار گالیوں کی تجارت سے گھر چلاتے ہیں، گٹر کی بدبو پہلے پروڈیوس کرتے ہیں پھر اسے پھیلاتے ہیں اور یہ اطوار ہمیں سیکھنے چاہیے تاکہ ہمارے مخالفین قابو میں رہیں اور ہر گز ہر گز ہمارے کہنے سے روگردانی کی جراءت نہ کریں۔

عمران صاحب کا سب سے بڑا احسان ہمیں یہ سمجھانا ہے کہ ہم غلام ابن غلام ہیں ہماری پیدائش کا مقصد آقاؤں کو خوش کرنا اور کرتے رہنا ہے۔ آقا تبدیل ہوں گے غلام نہیں، لہذا خواب دیکھنے پر پابندی ہے۔ آقا کتوں کے ساتھ تین سو کنال کے گھر میں رہیں گے اور بغیر کچھ کمائے ان کے کتے بھی بکرے کے تازہ گوشت پر پلیں گے لیکن ہم اَلو پیاز میں الجھے رہیں کیونکہ کوئی آقا ٹماٹر اور الو کو کنٹرول کرنے نہیں آتا، ان کے بڑے بڑے پروجیکٹ ہوتے ہیں جیسے کہ رنگ روڈ وغیرہ اس میں تو اَلو پیاز اور آٹا مضحکہ خیز بریک ہے۔

لہذا ہمیں اب یہ سیکھ لینا چاہیے کہ خواب ہمارے لیے نہیں ہیں۔ خان صاحب کے ان احسانات کے نیچے قوم عرصے تک دبی رہے گی۔

Check Also

Mazdooron Ka Aalmi Din

By Kiran Arzoo Nadeem