Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salma Latif
  4. Darknet Aur Hamare Bache

Darknet Aur Hamare Bache

ڈارک نیٹ اور ہمارے بچے

شیطان کے وار کاری ہیں اور جاری ہیں ڈارک نیٹ بھی شیطان کے پھیلا ئے ہوئے بدترین جالوں میں سے ایک جال ہے۔ جس کا ایندھن ہم اور ہماری نسلیں ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس بارے میں بہت سی معلومات موجود ہیں۔ آج ہم اپنے قارئین کے لیے سادہ اور آسان فہم زبان میں کچھ ایسے پہلوؤ ں کا ذکر کریں گے جن سے آگاہی اور بچاؤ کی کوشش فی زمانہ ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔

انٹرنیٹ کی دنیا چار درجات پر مشتمل ہے۔ surface یعنی وہ انٹرنیٹ جسے آپ اور ہم جانتے ہیں گوگل چاچا جس کے ایک انجن ہیں جو آپ کے ہر سوال کا فوری جواب دیتے ہیں اور مہذب دنیا کی بری بھلی اکثر ظاہر شدہ معلومات تک رسائی تمام لوگوں کو میسر ہے یہ محض ٪4 ہے۔ دوسرا درجہ ڈیپ ویب کا(٪90) ہے یہ کسی surfing میں نہیں آتا اس میں بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیز کا ڈیٹا یونیورسٹیز کا ڈیٹا حکو متوں کے زیر سرپرستی جمع کیا جانے والا حساس نوعیت کا ڈیٹا اور اسی نوعیت کی دوسری معلومات جمع کی جاتی ہیں جس تک رسائی ہر ایک کے لیے نہیں ہوتی۔ تیسر ا درجہ ڈارک ویب کا ہے یہ ٪5ہے یہ عمومی طور پر مجرموں کی سلطنت ہے جہاں جرم پھیلتا پھولتا اور پنپتا ہے یہاں ہر طرح کا غیر قانونی کام ہوتا ہے جیسے ڈرگز خون ریزی غیر قانونی ہتھیار اور بہت کچھ۔ چوتھا اور آخری درجہ Mariana Web کا ہے یہ انٹرنیٹ کا تاریک ترین درجہ ہے جہاں ماورائی قوتوں جادو ٹونہ اسی طرح کی دوسری مافوق الفطرت اشیاء کی آماجگاہ ہے۔

ڈارک ویب کا ستر سے اسّی فیصد حصہ جنسی تشدد کی دردناک کہانیو ں سے بھرا ہوا ہے۔ 2010 میں ڈیزی بچی کی دردناک موت کی وڈیوز لیک ہوئیں جس سے اس وقت سمجھی جانے ولی کہانیوں کو حقیقت تسلیم کیا گیا۔ ڈارک ویب پر چلنے اور چلانے والے ذہنی مریض قسم کے لوگ ہیں۔ ان کے اپنے سیٹ اپس ہیں اور یہ اس وقت پوری دنیا میں ہیں لیکن ان کا خصوصی نشانہ وہ بچے ہیں جو غریب یا جنگ زدہ ممالک سے اغواء کرکے یہاں پہنچائے ہیں پھر یہاں ان کی باقاعدہ بولی لگتی ہے کرپٹو کرنسی نامی ایک کرنسی بٹ کوائنز اس میں کام آتے ہیں اور اس میں سب سے زیادو بولی لگانے والا اس بچے یا بچی کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ ممبران کو ریڈ روم تک براہ راست ویڈیو لنک کے ذریعے رسائی دی جاتی ہے پھر کوئی مرد یا عورت خوف اور دہشت کی علامت بن کر اس ریڈ روم میں پہنچتا ہے اور سب سے زیادہ بولی لگانے والے کی تسکین کے لیے سب کرتا ہے ریپ تشدد جسمانی اعضاء کا کاٹ دینا اور درد ناک موت سے ہمکنار کرنا انکے محبوب مشغلے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ کا غلیظ ترین اور مکروہ ترین کاروبار ہے جس میں انسانی جانوں کا زیاں بدترین طریقے سے کیا جاتا ہے۔ بچہ 5 ماہ سے 14 سال تک کا ہوسکتا ہے۔ قصور کی زینب وہ پہلی بچی تھی جس کے کیس کی گونج پورے پاکستا ن میں گونجی اور اس کی تشدد ذدہ لاش چار دن بعد کچرے کے ڈھیر سے ملی۔ ذیشان نامی سرکاری ملازم سمیت ہمارے اردگرد پھیلے بے شمار کردار ہیں جن کے چہرے دیدہ زیب پردوں میں چھپے ہیں۔ وہ سب (اس گندے اور مکرہ کاروبار کا) حصہ ہیں۔ بچوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا جنسی اعضاء کاٹ دینا کان یا زبان یا ہونٹ کاٹنا یا آنکھیں نکال دینا اور پھر بلآخر مار دینا یہ سب دنیا کے ذہنی مریض اپنی اپنی اسکرینوں پر براہ راست دیکھتے ہیں اور اس دیکھنے کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ اس وقت یہ دنیا کا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اس سے وابستہ لوگ اس قدر طاقتور ہیں کہ انہیں روکنا کسی ایک ادارے یا حکومت کے بس کی بات نہیں۔

سوال یہ ہے کہ بحیثیت والدین ہم اپنے بچوں کو اس بدترین صورتحال سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ اسی سے جڑا ایک اور سوال یہ ہے کہ بچے اس صورتحال تک پہنچے یا پہنچائے کیسے جاتے ہیں؟ جواب سادہ لیکن معاشرتی پیچیدگی سے بھرا ہوا ہے والدین نے ترقی کی دوڑ میں خود کو ایندھن کی طرح جھونک دیا ہے۔ کچھ اور کچھ مزید کچھ بہتر اس چکر نے ایک گورکھ دھندے کی شکل اختیار کر لی ہے جس میں ہم سب الجھتے جا رہے ہیں۔ سمجھنا پڑے گا کہ معاشرتی تطہیر کا عمل خاندا ن کی اکائی سے شروع ہوتا ہے ماننا پڑے گا کہ اکیلا مرد یا اکیلی عورت سچ اور نیکی کے ٹھیکے دار نہیں ہیں۔ فطرت کا نظام ہے مرد اور عورت مل کر ایک خاندا ن تشکیل دیتے ہیں دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں جنہیں مل کر ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔ والدین اور تربیت کی کمی کا علاج موبائل یا انٹرنیٹ، محلے دار، دوست یا عزیز نہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ جدید تقاضوں کو نبھانے کے لیے بھی بچوں کے ساتھ آپ کا ہونا ضروری ہے۔ یوں سمجھیئے کہ آپ کی قیمتی ترین متاع یعنی آپ کے بچے کسی کھائی پر رکھے کمزور پُل سے گزر رہے ہیں بہت سے عوامل بچوں کو گمراہ کر دینے کے درپے ہیں کیا آپ چاہیں گے آپکے بچے کھائی میں گر کر ناپید ہو جائیں (خدانخواستہ)۔ یقیناً یہ کسی بھی اہل دل کے لیے ناقابل تصور ہے۔

ڈارک ویب کے کرتا دھرتا پسماندہ ممالک اور پسماندہ علاقوں میں چند لوگوں کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جس نے مکڑی کے جال کی طرح ہر طرف پاؤں پھیلائے ہوئے ہیں۔ غریب، ترقی پذیر اور پسماندہ، جنگ زدہ ممالک سے صاحب حیثیت لوگوں کے ذریعے سیٹ اپس لگوائے جاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی ٹیم بناتے ہیں جس کے ذریعے شکار کو پھانسنا، اغواء کرکے یا بلیک میل کرکے ان کے مخصوص اڈوں تک پہنچانا اور پھر جنسی تشدد کرنا اذیت ناک طریقے سے قتل کرنا اور بعض اوقات تلاش تک غائب کردینا سب ایک باقاعدہ نظام کی شکل میں موجود ہے اس کا حصہ بننے کا بنیادی محرک پیسہ ہے جو عموماً امیر ترقی یافتہ ممالک کے ذہنی مریض اپنے پاگل پن کی تسکین کے لیے فراخ دلی سے خرچ کرتے ہیں اس میں سمجھنے کی باتیں دو ہیں۔ اول یہ کہ اپنے اردگرد کا خیال رکھیں یہ لوگ کہیں بھی کسی بھی مشکل میں کسی کو بھی اغواء کرسکتے ہیں جس کے لیے باقاعدہ ریکی کرتے ہیں بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ معاشرے میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کو محض کسی اور کا درد سر سمجھ کر نظر انداز مت کریں جس تیزی سے یہ آگ بھڑک رہی ہے یہ کچھ نہیں چھوڑے گی۔ دوسری اہم بات معاشرتی تطہیر ہے اور معاشرہ افراد سے بنتا ہے اس کی بنیادی اکائی خاندان ہے۔ جب فرد ہی نفسیاتی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوگا تو یہ لاواکہیں نہ کہیں ضرور نکلے گا اور بدقسمتی سے فی زمانہ فحاشی اور عریانی نے دبی ہوئی کچلی ہوئی خواہشات کو صرف جنس کے رنگ میں لپیٹ کر دکھایا ہے۔ پورا معاشرہ پریشر ککر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بے تحاشہ مصروفیات نے فراوانی سے میسر انٹرنیٹ بنڈلز نے موبائل فونز نے تاریک راہوں کو اجاگر کیا ہے۔ دلوں میں گنجائش کم کردی ہے نفسانی ابال بڑھا دیا ہے۔ یہ سب فطری نہیں ہے۔ ہم سب گویا کسی منڈی میں بکنے والی شے کی طرح ہیں۔ خدارا اپنے گھر کو بچوں کو پڑوس گلی محلے پورے معاشرے کو اپنائیے۔ اندھا دھند کچھ مت کریں۔ ذرا تھم جائیں۔ اردگرد ہوتے واقعات ہم آپ جیسے لوگوں کے ساتھ ہی پیش آرہے ہیں۔ دھوکہ مت کھائیے نہ اپنے پیاروں کو کھانے دیجیئے۔

Check Also

Safar e Hayat Ke 66 Baras, Qalam Mazdoori, Dost Aur Kitaben

By Haider Javed Syed