Bachon Mein Barhta Hua Depression
بچوں میں بڑھتا ہوا ڈپریشن
چاند، ستاروں، تتلیوں اور پھولوں کو جگہ اکثر بچپن میں ملتی ہے۔ آسماں پر بادل مختلف شکلوں میں ڈھلتے، کرین ڈائنو سار یا مرغے کی شکل میں ڈھلتی نظر آتی ہے۔ دیواروں کے دھبے مختلف کرداروں کا روپ دھارتے ہیں۔ مٹی میں لتھڑے ہاتھ مسئلہ نہیں لگتے اور ہنسی بے ساختہ ابلتی ہے کسی پہاڑی جھرنے کی طرح۔ ایک ٹافی سے آنسو رک جاتے ہیں۔ دودھ کے دانت کا ٹوٹنا انتہائی غم کا باعث بنتا ہے۔ چھوٹے دکھ پہاڑ کی مانند لگتے ہیں۔ کیا، کیوں اور کیسے، جیسے سوالات بچپن سے جڑے ہوتے ہیں۔ والدین کی ایک مسکراہٹ اور شاباشی کے سامنے ساری دنیا ہیچ نظر آتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں روئی کے گالوں کی طرح فضا میں تیرتی ہیں۔ کبھی ذہن میں سوال اٹھتے ہیں کہ کیا بچپن سب کا ایسا ہوتا ہے؟ سب کےلیئے نہ سہی اکثریت کے لیئے کیا بچپن کا مفہوم یہی ہے؟ تو جواب نفی میں آتا ہے۔
آغا خان یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق ڈپریشن اس وقت پاکستان کے بچوں کا اہم ترین ذہنی مسئلہ بن چکاہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں 35 سے 40 فیصد لوگ ڈپریشن نامی بیماری کا شکار ہوں تو وہاں بچوں کا اسکی زد سے باہر رہنا کیسے ممکن ہے؟ عوامل کیا ہیں؟ اس پہ سوچنے کا وقت ہی نہیں کیونکہ آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی اکثر اہم باتیں نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ کام کا دباؤ ' زندگی کے مسائل اور کچھ رویے ناقابل برداشت بوجھ بن جاتے ہیں۔ اداسی اور نا خوشی والدین کے سروں پر گھونسلے بنالیتی ہے جو بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ حل کیا ہے؟ کیا علاج ممکن ہے؟ توجہ نہ دینے کی صورت میں کیا ہوگا؟ آئیے انکا حل جاننے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اکثر مسئلہ کا حل اسکی جڑ میں چھپا ہوتا ہے۔
2020 میں دنیا عجیب و غریب صورت حال سے گزری ہے۔ لہذا ڈپریشن کا شکار ہونا حیرت کا باعث نہیں ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہی ہمارے گھروں اور طرز معاشرت میں ایسے رویئے سرایت کر چکے ہیں۔ جسکی وجہ سے بچوں میں اداسی، ناخوشی، پژمردگی اور بالاآخر ڈپریشن کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ بچوں کا "موازنہ کرنا" ایک مرض ہے۔ ایک ایسا مرض جسکا ادراک نہیں ہو پاتا یا والدین جانتے بوجھتے نظر انداز کرتے ہیں۔ کیونکہ کہ دنیا کا یہی طور طریقہ ہے۔ والدین اکثر جانے انجانے میں اپنے یا معاشرے کے قائم کردہ فریم میں بچے کو فکس دیکھنا چاہتے ہیں اگر بچے خود کو اس قائم کردہ فریم میں فٹ نہیں کرسکیں تو بے اطمینانی والدین کے وجود سے بچوں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ مجموعی طور پر نا خوشی اور نا شکری ہمارے اذہان اور وجود کا حصہ بن چکی ہیں۔ نہ ہم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ ہی خوشی کو مناتے ہیں۔ ترقی کی اندھا دھند دوڑ میں ہم بچوں کو بھی گھسیٹ چکے ہیں۔ مسابقت کی دوڑ درد سر بن چکی ہے کہ دوست ' کزن' پڑوسی اور رشتہ دار کو جو مراعات اور سہولیات حاصل ہیں وہ ہمارا اور بچوں کا مقدر کیسے بنیں۔ یہ اب یہ رویہ اور بے چینی بچوں کے وجود کا حصہ ہے۔ اس دوڑ کا ایندھن ہم، ہماری زندگی اور ہمارے بچے بن رہے ہیں اور نتیجہ بڑھتے ہوئے ڈپریشن کی صورت نکلتا ہے-کسی چیز کی خواہش کرنا اور اسے حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا ایک صحت مند رویہ ہے۔ لیکن کسی چیز کی خواہش اسلئے کرنا کہ وہ دوسرے کے پاس ہے اور پھر اسکے حصول کے لئے اچھے برے کی تمیز بھول جانا بالاآخر ڈپریشن پر منتج ہوتا ہے۔ اس دوڑ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا کیونکہ اسکا اختتام نہیں ہے۔
اکثر بچوں پر لفظ بہترین کا ٹیگ چسپاں کر دیا جاتا ہے کیونکہ بچوں کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے نتائج کا ذکر بڑوں کی محافل کی جان ہوتا ہے۔ میرے بچے نے یہ کیا، میرے بچے نے وہ کیا، مشہور اور مہنگا برانڈ پہنا، غیر ملکی فوڈ چین سے پزا کھایا، دوستوں کے ساتھ فلاں جگہ پارٹی کی، اسکول کی فیس اتنی ہے اور ٹیوٹر کا خرچہ اتنا ہے۔ مادیت پرستی پر مبنی باتیں آپ کے بچے دیکھ اور سن رہے ہیں اور سیکھ بھی رہے ہیں اور یقینا ً بڑوں کی طرح پیش آئیں گے۔ قناعت پہلے بڑوں سے اٹھی ہے اور اب بچوں سے بھی۔ گھریلو لڑائی جھگڑے، والدین کی علیحدگی، جنسی استحصال، معاشرتی روئیے، زیادہ نمبر لینے کا مسئلہ شاید بڑوں کے لیے معمولی باتیں ہوں لیکن بچوں کے لیے ان مسائل کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ اور معذوری ہو تواسکا بوجھ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں سے صحت مند رویہ عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔
مصروف زندگی میں سے وقت نکالئیےاور مشاہدہ کیجئے کہ کیا آپ کے بچے میں ڈپریشن کی علامات ہیں؟ زیادہ ضدی یا چڑچڑا تو نہیں ہو رہا، موڈ میں زیادہ بدلاؤ تو نہیں آرہا، کھانے کی مقدار میں کمی یا ذیادتی تو نہیں ہو رہی؟ اگر بچہ ان چیزوں یا کھیل سے لطف اندوز نہیں ہورہا جن سے خوش رہا کرتا تھا۔ تو حالات نارمل نہیں ہیں۔ نیند کے اوقات میں اتار چڑھاؤ تو نہیں ہے۔ بچے کا اچانک زیادہ خاموش ہونا یا اک دم باتونی ہوجانا، وزن کا بڑھنا یا کم ہونا بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر پڑھائی میں دلچسپی کم ہو گئی ہےیا نمبر کم آنے لگے ہیں اور امتحانی کارگردگی بالکل غیر متوقع ہے۔ تو یہ چوکنا ہونے اور بچے سے بات چیت کا وقت ہے۔
بچوں کے کھیل کا بھی مشاہدہ کیجئیے۔ بچوں کا کھیل ان کی نفسیات سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بچوں کے کھیل میں دلچسپی لیں آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا-گھریلو لڑائی جھگڑے سے متاثر بچے لڑائی والے کھیل کھیلیں گے۔ مارپیٹ کا شکار بچے کا کھیل پُر تشّدد ہوگا۔ کسی سے خوف زدہ بچے جنوں بھوتوں کی بات کریں گےایک دوسرے کو ڈرائیں گےاکثر اندر کے خوف بھوت بن کر ڈراتے ہیں۔ بات چیت کا آرام دہ ماحول بنائیں مکالمہ کا آغاز کریں۔ بچے کے جذبات جاننے کی کوشش کریں اگر بچہ بات کرنے پر آمادہ نہ ہو تو ہار مت مانیئے اور کوشش جاری رکھیں۔ نرمی اور شفقت سے پیش آئیں۔
غور کریں آپکے وقت کی کمی، مسابقتی کشمکش یا آپکے وضع کردہ معیار تک نہ پہنچنےکا خوف بچے کو ڈپریشن کی طرف تو نہیں دھکیل رہا؟ شاید یہی مسئلہ ہو۔ بات کیجیئے، یہ ضروری ہے۔ تحفظ کی فراہمی اور انہیں خامیوں اور کمزوریوں کے ساتھ قبول کیے جانے کا احساس دلانا ہی انہیں مضبوط بنائے گا-
ڈپریشن ایک بیماری ہےلیکن اسکا علاج موجود ہے۔ اگر گھر کے افراد باہمی تعلقات کو گرم جوش بنائیں اور اپنے دائرے میں رہتے ہوئے نعمتوں کا شکر ادا کریں تو یقیناً بچے بھی خوش رہنا سیکھیں گے۔ والدین بچوں کے کپڑوں اور جوتوں کا جتنا خیال رکھتے ہیں آسائشات فراہم کرنے کے لیےجتنی محنت کرتے ہیں اگر اُتنی محنت سے یہ سکھا دیں کہ خوش کیسے رہا جاتا ہےتو بہت سے مسائل پیدا نہیں ہو گے۔ اگر ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑے تو اس میں شرم یا عار مت محسوس کریں نہ ہی بچے کے سامنے خاص طور پر زیر بحث لائیں کیونکہ یہ ایک بیماری ہے جس کے علاج میں ڈاکٹر کی مدد لی جانی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر ذہنی مسائل پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ دماغ ہمارے جسم کا اہم حصہ ہے جو کہ انسانی بدن کو چلاتا ہے۔ اسکا صحت مند رہنا ضروری ہے اور صحت مند سوچ ہی صحت مند دماغ کی ضامن ہے۔ اپنے گھروں اور انکے مکینوں کی حفاظت کیجیئے کیونکہ یہ بیش قیمت ہیں۔