Zamana Jahiliat Ki Arab Maa Ki Apni Beti Ko Nasihatein
زمانہ جاہلیت کی عرب ماں کی اپنی بیٹی کو نصیحتیں
زمانہ جاہلیت میں عوف بن ملحم ایک عرب سردار تھا۔ اس کی ایک بیٹی اس کا پورا نام اُم اناس بنت عوف بن محلم الشيبانی تھا۔ واضح رہے کہ اُم اناس اس کی کنیت نہیں بلکہ نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دورِ جاہلیت میں عرب خواتین میں خوب صورت ترین خاتون تھی۔ اس کی ماں کا نام امامہ بنت کسر بن کعب بن زہیر التغلبی ہے جو معروف شاعر اِمرؤالقیس (جو کہ آقا ﷺ کے میلاد پاک سے 70 سال قبل پیدا ہوا تھا) کے دادا الحارث بن عمرو کی ماں بھی تھی۔
عوف بن ملحم کی بیٹی کے حسن و سلیقہ کا چرچا ریاست کندہ کے بادشاہ حارث بن عمرو نے سنا تو اس کا رشتہ طلب کیا۔ یہ رشتہ طے ہوگیا۔ رسم نکاح کے بعد ماں (امامہ بنت کسر) نے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے ایک بلیغ خطبہ دیا اور 10 نصیحتیں کیں۔ یہ خطبہ عربی ادب اور عرب کی بلاغت و فصاحت کا ایک نادر نمونہ ہیں۔ اس خطبہ میں سے وہ دس نصیحتیں آپ سب کی نذر۔
اے میری بیٹی۔ آج تو اس نشیمن کو چھوڑ کر جا رہی ہے، جس میں تو نے نشونما پائی۔ ایک ایسے آشیانے کی طرف جا رہی ہے جسے تو نہیں جانتی اور ایک ایسے ساتھی کی طرف کوچ کر رہی ہے جس کو تو نہیں پہچانتی پس، وہ تجھے اپنے نکاح میں لینے سے تیرا نگہبان اور مالک بن گیا ہے۔ تو اس کے لئے فرمانبردار کنیز بن جا، وہ تیرا وفادار غلام بن جائے گا۔ اے میری بیٹی، اپنی ماں سے دس 10 باتیں یاد کر لے، یہ تیرے لئے قیمتی سرمایہ اور مفید یادداشت ثابت ہوں گی۔
1۔ سنگت (رفاقت) قناعت سے دائمی بنے گی، اور باہمی میل جول اس کی بات سننے اور اس کا حکم ماننے سے پر مسرت (خوشگوار) ہوگا۔
2۔ جہاں جہاں اس کی نگاہ پڑتی ہے ان جگہوں کا خاص خیال رکھ، اور جہاں جہاں اس کی ناک سونگھ سکتی ہے اس کے بارے میں محتاط رہ، تاکہ اس کی نگاہ تیرے جسم اور لباس کے کسی ایسے حصے پر نہ پڑے جو بدنما اور غلیظ ہو اور تجھ سے بدبو نہ آئے بلکہ خوشبو سونگھے۔ اس بات کا خاص خیال رکھنا۔
3۔ سرمہ حسن کی افزائش کا بہترین ذریعہ ہے اور پانی گمشدہ خوشبو سے بہت زیادہ پاکیزہ ہے۔ (یعنی جب خوشبو جسم کی بو کے سامنے ماند پڑنے لگے تو نہانا ضروری ہے۔)
4۔ اس کے کھانے کے وقت کا خاص خیال رکھنا اور جب وہ سوئے اس کے آرام میں مخل نہ ہونا۔ کیونکہ بھوک کی حرارت شعلہ بن جایا کرتی ہے اور نیند میں خلل اندازی (ڈسٹرب) بغض کا باعث بن جاتی ہے (یعنی وقت پر بھوک اور نیند کا خیال نہ رکھنا مرد میں بیوی کے لئے غصہ اور ضد پیدا کرتا ہے)۔
5۔ اس کے گھر اور مال کی حفاظت کرنا، اس کی ذات، اس کے ملازموں اور اس کے عیال (رشتہ داروں ) کی ہر طرح خبر گیری کرنا۔
6۔ اس کے راز کو افشا مت کرنا، اس کی نافرمانی مت کرنا۔ اگر تو اس کے راز کو فاش کر دے گی تو اس کے غدر (فساد، ہنگامہ) سے محفوظ نہیں رہ سکے گی اور اگر تو اس کے حکم (باتوں) کی نافرمانی کرے گی، تو اس کے سینہ میں تیرے بارے میں غیظ و غضب بھر جائے گا۔
7۔ جب وہ (خاوند) غمزدہ اور افسردہ ہو تو خوشی کے اظہار سے اجتناب کرنا، اور جب وہ خوش ہو تو اس کے سامنے منہ بسور کر (برا، بے پرواہ) مت بیٹھنا۔ پہلی خصلت آداب زوجیت کی ادائیگی میں کوتاہی ہے۔ (یعنی خاوند خفا ہو اور بیوی خوشیاں منا رہی ہوں) اور دوسری خصلت دل کو مکدر (بددل) کر دینے والی ہے۔ (یعنی خاوند خوش ہو اور بیوی منہ بگاڑ کر بیٹھے)۔
8۔ جتنا تم سے ہو سکے اس کی تعظیم و عزت کرنا، وہ اسی قدر تمہارا احترام کرے گا۔
9۔ جس قدر تم اس کی ہمنوا (ساتھ دو گی) اتنی ہی قدر وہ تمہیں اپنی رفیقہ حیات سمجھے گا۔ (یعنی بیوی خاوند سے بے نیاز ہوتی جائے گی تو خاوند بھی اس سے بے نیاز ہو جائے گا)۔
10۔ اچھی طرح جان لو۔ تم جس چیز کو پسند کرتی ہو اسے پا نہیں سکتیں، جب تک تم اس کی رضا کو اپنی رضا پر اور اس کی خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح نہ دے دو، خواہ وہ بات تمہیں پسند ہو یا ناپسند۔ (یعنی خاوند اور اس کی ہر چیز پر اختیار)۔
اے میری بیٹی! ربّ تمہارا بھلا اور خیر کرے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس خاتون نے اپنی ماں کی نصیحتوں پر عمل پیرا ہو کر بادشاہ کا دل جیتا اور ایک عزت دار اور قابل رشک زندگی بسر کی۔
(اہل عرب کی غیرت و حمیت، ص 309 تا 312، ضیاء النبی از پیر کرم شاہ الازہری سے اقتباس)
واضح رہے یہ ایک سردار کی بیٹی ہے جو ناز و نعم میں پلی اور خوبصورتی میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ گھر سے پوری تھی اور بیاہی بھی بادشاہ سے جا رہی تھی۔ صرف ماڈرن اور امیر ہونا اور امیر جگہ رشتہ ہونا کافی نہیں۔ سلیقہ اور وفا شعاری کی تعلیم و تربیت گھروں کو، بیٹیوں اور بیٹوں کو آباد رکھتی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔