Valentine Day
ویلنٹائن ڈے
ہماری شدید نوجوانی میں ویلنٹائن ڈے کا خمار شروع ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ میں ایک بزرگ کے پاس بیٹھا تھا۔ ان کا ایک مرید جسے وہ اپنا بیٹا کہا کرتے تھے۔ قریب ہوا اور بولا۔ بابا جی، میں ان کو لے آیا ہوں۔ کہیں تو ملا دوں۔ بابا جی نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا۔ صبر ذرا مہمان فارغ کر لوں۔ وہ بولا بابا جی ہم گاڑی میں بیٹھے ہیں جب یہ مہمان نکل جائیں گے ہم حاضر ہو جائیں گے۔
بابا جی نے اثبات میں سر ہلایا۔ دس پندرہ منٹ بعد جب ان مہمانوں نے اجازت طلب کی تو میں بھی اٹھنے لگا تو بابا بولے۔ کاکا، تو بیٹھ تیرے سامنے ملنا ہے۔ اگر کسی کو تجھ سے تکلیف ہے تو نہ ملے مجھ سے۔ خیر وہ لڑکا ایک نوجوان، خوبصورت اور با پردہ جس نے حجاب بنایا ہوا تھا اور چہرہ کھلا تھا۔ معصوم سی، 25 یا 26 سال کی لڑکی ہوگی۔ دونوں اندر آئے اور بابا جان سے سلام اور دعا لی اور بیٹھ گئے۔ بابا جی نے لڑکے کی طرف دیکھ کر پوچھا کہو کیسے آنا ہوا۔ تم کہہ رہے تھے یہ بچی تکلیف میں ہے۔
تو اس لڑکے نے میری طرف دیکھا اور پھر بابا جی کی طرف دیکھا۔ بابا جی نے ایک دم کہا یہ ہمارے ساتھ بیٹھے گا۔ اگر اس کی موجودگی میں بات نہیں کر سکتے تو آپ لوگوں کو اجازت ہے۔ دونوں سمٹ کر آگے ہوئے اور لڑکا بولا۔ بابا جی۔ یہ میری دوست ہے اور ایک پرائیوٹ کمپنی میں نوکری کرتی ہے۔ ماشاءاللہ بہت شریف، نمازی اور تہجد بھی پڑھتی ہے۔ شادی ہوئی تھی ایک بچہ ہے اور طلاق ہوگئی۔ اب چاہتی ہے کہ جلد از جلد گھر آباد ہو جائے۔
باباجی نے دونوں کی طرف دیکھا تو، جلال میں بولے مگر میں تو تم دونوں کی آنکھوں، چہرے اور بدن پر زنا ہی زنا دیکھ رہا ہوں۔ وہ لڑکا گھبرا گیا اور لڑکی ڈر کر رونے لگی۔ بابا بولا۔ سنو حدیث پاک ہے کہ
"بے شک اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیا ہے جس کو وہ یقیناََ پائے گا۔ پس آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے اور ہاتھ زنا کرتے ہیں ان کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں زنا کرتے ہیں ان کا زنا چلنا ہے اور نفس زنا کی تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ "
تو تم دونوں کی نگاہیں اور ہاتھ اور چہرے اپنا اپنا حصہ مکمل کر چکے ہیں۔ لڑکے نے تو سر جھکا لیا۔ مگر لڑکی نے بابے کی طرف بہت دکھی انداز میں دیکھنا شروع کر دیا ہو جیسے التجا کر رہی ہو مجھے بچا لیں۔ بابے نے لڑکی کی طرف دیکھا اور اس لڑکے کو کہا۔ تم باہر جاؤ، وہ باہر گیا تو لڑکی کو بابا جی نے کہا۔ اب کہو۔ وہ بولی بابا جی۔ نماز پڑھتی ہوں، درود پڑھتی ہوں ایک رمضان میں کم از کم دو قرآن ختم کرتی ہوں۔
لیکن یہ ضد ہے کہ میرے سابق خاوند کی مجھے چھوڑتے ہی شادی ہوگئی۔ لیکن مجھے لوگ صرف دوست بنانا چاہتے ہیں۔ پھر مجھے انہیں اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور کرنے کے لئے ان کی کئی خواہشات کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ آج کا مرد ساتھ نبھانے کی قیمت چاہتا ہے۔ اور وہ اعتبار جسم دیکھنے اور پڑھنے سے ہی کرتا ہے ورنہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اس کا احترام اور اعتماد نہیں کرتی۔
بابا بولا۔ بیٹی کلمہ تو سناؤ۔ اس نے چونک کر بابے کی طرف دیکھا جیسے حیران ہو رہی ہو کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بابا نے پھر اصرار کیا تو لڑکی نے کلمہ پڑھا اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا۔ بابا بولا یہ کلمہ میں نے اس لئے پڑھایا ہے کہ تم مشرک اور کافر سے بھی گھٹیا درجہ پر ہو۔ اس کی چیخ نکل گئی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بابا نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا اور بولا۔
بیٹی، صرف نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے، قرآن پڑھنے سے انسان ایماندار نہیں ہوتا۔ ایمان دل سے ماننے کی بات ہے کہ میرا اللہ جو میرے لئے اچھا ہے ضرور عطا کرے گا۔ پھر اس کے لئے اچھے اخلاقی طریقے رکھ دئے ہیں اور کوئی اگر ان اخلاقی حدود پر رہتے ہوئے آپ سے اقرار وفا نہیں کرتا رشتہ نہیں بھیجتا تو سمجھ جاؤ کہ وہ جسم کی چاہت رکھتا ہے۔ تم اس کی جتنی خواہش کو اعتماد کے نام پر پورا کرو گی آخری جواب اس کا یہ ہوگا کہ یہی اعتبار ناجانے تم نے کتنوں کو دلایا ہوگا۔ اور آپ کے ہاتھ مزید ایک مرد کا کچرہ جو اس نے آپ پر نظروں اور جسم سے پھینکا اسکے بوجھ میں آ جائیں گی۔
بیٹی، بخاری شریف کی حدیث ہے۔
ترجمہ: تنہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ جو تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی نصیبہ ور کا نصیبہ تیرے مقابلہ میں اسے نفع نہیں پہنچا سکے گا۔ "
اب بتاؤ۔ اس سے بڑا شرک کیا ہے کہ انسان کسی چیز کے حصول کے لئے جانوروں سے بھی نیچے گر جائے۔ اگر تمہاری نمازیں، تمہاری عبادتیں تم میں ابھی بھی یہ یقین راسخ نہیں کر سکیں کہ تمہارا کام صرف کوشش ہے، اچھے اخلاق طریقے سے کوشش کرو اور نتیجہ ربّ پر چھوڑ دو۔ اگر ایسا نہیں تو بیٹی تم قرآن، نبی کریم ﷺ کی اور اپنی ذات سے کفر کر رہی ہو اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ آخر میں تمہاری حیثیت ایک کچرہ دان کی طرح ہی رہ جائے گی۔
بچی کا چہرہ ہشاش بشاش ہوگیا اور بولی بابا میں پوری کوشش کروں گی کہ اب مرتد نہ ہوں۔ میرے لئے دعا کرنا۔ بابا نے لڑکے کو اندر بلایا اور کہا سنو اوئے۔ یہ اب میری بیٹی ہے۔ اسی احترام سے اسے گھر چھوڑنا۔ جب یہ دونوں چلے گئے تو بابا میری طرف مڑا اور بولا۔ یہ دونوں باز نہیں آئیں گے۔ کیونکہ ان دونوں کو ابلیسیت نے مکمل گھیر لیا ہے۔ لڑکی اگر نکلنا بھی چاہے تو لڑکا اپنے ہاتھ آئی چڑیا بغیر دانہ دنکا چگے جانے نہیں دے۔ کاش اسے کوئی سنبھال لیتا اور بابا جی نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔
میں اس واقعہ سے بوجھل وہاں سے اٹھا۔ پھر چند دنوں میں بھول گیا۔ لیکن ایک دن اچانک دونوں کو میں نے ایک ریسٹورنٹ میں مسکراتے کھلکھلا کر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تصویر بناتے دیکھا۔ پورا ریسٹورنٹ سرخ گلابوں اور گلابی غباروں سے سجا ہوا تھا۔ تب مجھے یاد آیا آج تو ویلنٹائن ڈے ہے۔