Taar e Harir Do Rang
تار حریر دو رنگ

وحی اور الہام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وحی منجانب اللہ معصوم قلوب پر ہوتی ہے۔ جس میں کسی شک کی ملاوٹ نہی ہوتی اور وہ کام عین فرض ہوتا ہے۔ جبکہ الہام میں نفسی آمیزش کا خطرہ بہرحال موجود رہتا ہے۔
اب اللہ کریم نے وحی کا لفظ قران میں انبیاء کے علاوہ ایک شہد کی مکھی کے لئے استعمال فرمایا ہے اور دوسرا حضرت موسیؑ کی والدہ ماجدہ کے لئے استعمال فرمایا ہے۔
ترجمہ: نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور (انگور وغیرہ کی) بیلوں میں اپنا گھر (چھتا) بنا۔ (النحل 68)
اسی طرح حضرت موسیؑ کی والدہ ماجدہ کو ارشاد فرمایا
ترجمہ: ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج غم نہ کرنا ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں (القصص 7)۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انبیائے کرام کے والدین پاک نفوس ہوتے ہیں اور انھیں وحی کر دی جاتی ہے کہ ان کا بیٹا نبی ہے اور یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اگر موسیؑ کی والدہ کو الہامی کیفیت میں بتایا جاتا تو شاید وہ اپنی حالات کے مطابق اسے اپنے دل کی خواہش سمجھتیں اور مکمل طور پر اس پر عمل پیرا ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ شاید نہ کر پاتیں۔ لہذا یہ ایسا موقع نہ تھا کہ ان کی والدہ کو فیصلے کا اختیار دیا جاتا لہٰذا انہیں باقاعدہ وحی کی گئی تاکہ شک کا احتمال نہ رہے۔
اسی طرح سے شہد کی مکھی کی بھی الہامی کیفیت پر بات نہیں چھوڑی گئی۔ کیونکہ جانور کا نفس امارہ ہے۔ جو جبلت کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ کریم شہد کی مکھی سے ایک بہت پاک کام لینا چاہتے ہیں لہٰذا اسے گمراہ ہونے کی اجازت نہیں۔ بلکہ اگر وہ کہیں غلط جگہ سے رس لے آئی تو اسے اس کا قبیلہ چھتے سے باہر پھینک دیتا ہے۔
اب الہام کے لئے پیچھے ایک معاشرتی ردعمل ضرور ہوتا ہے۔ کسی شخص کا کسی ماحول میں بڑا ہونا اس حالت میں اس پر الہام کے مختلف معنی ہو سکتے ہیں۔ جیسے اگر کسی کی پرورش چور معاشرے میں ہوئی ہے تو وہ اکیلے پن کو موقع جانے گا کیونکہ اس کا الہام اسے یہی سکھائے گا۔ جبکہ ایک متقی اور با اخلاق معاشرے میں وہی اکیلے پن کو وہ خود احتسابی کی طرف راغب ہوگا۔ مثلاََ میں جاپان میں تھا رات کے 11 بجے میں اپنے جاپانی دوست کے ساتھ سڑک پر چل رہا تھا زیبراکراسنگ پر رات کے اس پہر میں نے چلنے والوں کی سرخ بتی کو دیکھ کر بھی سڑک کراس کرنا ایک موقع جانا جبکہ میرے ساتھ نوجوان بہت گھبرا گیا جب میں نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے بھی زبردستی سڑک کراس کرائی۔
لہذا الہام پر آپ کے معاشرتی ماحول کا ضرور اثر پڑتا ہے۔ اسی لئے اللہ کریم نے انسان کے لئے ارشاد فرمایا کہ اسے اچھائی اور برائی الہام کر دی گئی ہے۔
ترجمہ: پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری الہام کر دی (الشمس 8)۔
اب اس الہام کا مطلب ہے کہ چاہے اسے کوئی سمجھائے یا نہ سمجھائے اسے برائی یا نفسانی خواہشات سمجھ آئیں گی۔ اب ہر نفسانی خواہش بدی نہیں۔ اللہ کریم نے اس کائنات کے بہت سے افعال کی ذمہ داری نفس پر ڈالی ہے۔ مثلاََ کام کرنا، پیسے بنانا، اولاد پیدا کرنا، کھانا کھانا۔ اچھے کپڑے پہننا۔ لیکن ان کا غلط استعمال آپ کی معاشرتی اور گھریلو اقدار پر ہے۔ اولاد پیدا کرنے میں بھی شہوت کا عمل دخل نہ ہو تو جائز اولاد بھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ لیکن اسی شہہوت کو جو الہامی ہے ہم اپنی ضرورت سے زیادہ اور غیر اخلاقی طرح سے پوری کریں تو یہ قابل پکڑ ہے۔
اسی طرح سے کھانا کھانا ایک نفسانی ضرورت ہے لیکن کسی کا کھانا کھا جانا ایک اخلاقی تعلیم وتربیت پر منحصر ہے اور یہی آزمائش ہے کہ انسان کب اپنی نفسانی خواہشات کا جائز مقام سمجھتا ہے۔ تزکیۂ اچھائیوں کے چننے کا نام نہیں۔ بلکہ الہام شدہ برائیوں، کا جائز استعمال ہے تاکہ اس برائی کو اچھائی سے تبدیل کر دیا جائے۔ یہی پیغام اللہ کا بھی ہے کہ
ترجمہ: سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اور اللہ غفور ہے رحیم ہے۔
اور جو لوگ خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے اپنی الہامی کیفیات کا غلط مفہوم اخذ کر لیتے ہین ان کے لئے ارشاد فرمایا
ترجمہ: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ (ہود 15)
اسی لئے یہ کہنا کہ کوئی انسان گناہ نہیں کرے گا یہ ناممکن ہے۔ سوائے انبیائے کرام کے جن کے نفوس معصوم و پاک ہیں۔
لہذا نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
"جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور گناہ کے بعد نیکی کر لیا کرو وہ (نیکی) اس (گناہ) کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ"۔ (ترمذی و احمد)
اور اللہ اپنے بندوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ
ترجمہ: آپ فرمائیں: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورہ الزمر)
آپ خود سوچیں تا قیامت انسان خود پر اور دیگر مخلوقات پر کیا کیا زیادتی کریں گے۔۔ لیکن اگر وہ واپس آنا چاہیں گے تو اللہ کو کریم پائیں گے۔
نفس کی کارستانیوں کے بعد الہام کے آلودہ ہونے کی ہی وجہ سے تو اللہ کریم نے انسانوں کو کہا کہ
ترجمہ: دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی وسعت کے برابر ہے (الحدید)۔
لہذا میرے نزدیک اعمال میں اچھائیاں بڑھانا اور نفس میں موجود برائیوں کا مناسب استعمال ایک انسان کے لئے تزکیہ ہی ہے۔ گناہ چھوڑ کر نیکی کی طرف ہجرت شاید کسی انسان کی معراج ہو۔ اپنے کسی انسانی فعل کو نفسانی خواہش کے طابع ہونے سے بچانا نیکی ہے۔ میرے نزدیک 99 گناہوں گا 100 ہونا برائی ہے۔ جبکہ 99 پر رک جانا نیکی کی ابتداء ہے اور الہام کا جائز استعمال۔ یعنی تزکیہ کی ابتداء ہے۔ اسی لئے تو نبی کریمﷺ نے فرمایا۔
"جو شخص استغفار کرتا رہے، اُسے (گناہ پر) اصرار کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، اگرچہ دن میں ستر مرتبہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرے"۔ (سنن ابو دائود)
سِلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات
سِلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات
سِلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

