Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Shoebill Parinda

Shoebill Parinda

شوبل پرندہ

میں جب اسے آج سے ڈیرھ سال قبل ملا، تو اس کی بے وقوفانہ چلاکیوں اور سرپٹ اور اندھا دھند کسی کی جانب دوڑتے اور اس پر ڈونگوں سے محبت نچھاور کرتے دیکھ کر "شوبل" یاد آیا۔۔ اس کی آنکھوں اس کے توجہ دینے اور اس کی انتہائی چلاک دکھنے والی بیوقوفی نے مجھے bird shoebill کی یاد دلا دی۔۔ شوبل پرندہ ایک ایسا عجیب وغریب افریقی پرندہ ہے جس کا قد پانچ فٹ یا ساڑھے 5 فٹ ہوتا ہے۔۔

یہ پرندہ صاف پانی کی دلدلوں اور کھاڑیوں میں رہتا ہے۔ یہ پرندہ گھروں میں بھی پالا جاتا ہے اور انسان سے جلد مانوس ہوجاتا ہے اور یہ اپنی بڑی سی چونچ اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اپنے اچانک سامنے آجائے والے بندے کو یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا ہے جیسے انسان دیدے پھاڑ کر حیرت سے کسی کو دیکھ رہا ہو۔۔ یہ اس کی معصومیت ہے کہ جسے دیکھے دیکھتا رہ جاتا ہے اور پھر اس سے دوستی کی ابتداء اپنا ایک پر نوچ کر اسی طرح ٹکٹکی باندھے ہوئے سامنے والے کو پھول کی طرح پیش کرتا ہے۔۔

دیکھنے میں خود کو چالاک اور شکاری سمجھتا ہے مگر اس کا شمار دنیا کے بیوقوف ترین چند جانوروں میں ہوتا ہے۔ انہی خاصیتوں کی بناء پر میں نے اس کا نام فون میں"شوبل" رکھا۔۔ وہ جس کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی تھی اس سے گزشتہ کئی سالوں سے بے حد پیار کرتی تھی۔ چونکہ ایک سمجھدار اور اچھے عہدے پر کام کرنے والی خاتون تھی اسی لئے اس محبت میں صرف اپنے پیسے اور وقت کا ضیاع کر رہی تھی۔۔

سامنے والے نے بھی خوب شادی کے لارے دئے ہوئے تھے اور جب مجھ سے ملوایا تو بھی یہ کہہ کر ملوایا کہ میں اس خاتون سے شادی کروں گا جس کا مجھے یقین نہیں تھا۔ کیونکہ میں اس کی دل پھینک طبعیت سے واقف تھا۔۔ اسے دباؤ میں رکھنے کے لئے کہ وہ اس شریف لڑکی کا مزید استحصال نہ کرے میں نے "شوبل" کو بیٹی کہنا شروع کر دیا۔ چونکہ شوبل سے پیار کرنے والا مردوں میں طوائف خاصیت رکھنے والا انسان تھا تو وہ بہتر جانتا تھا کہ اگر کہیں جسمانی فوائد حاصل نہیں ہو سکتے تو خود پر بیچارگی طاری کرنے سے سے مالی فوائد اٹھائے جائیں۔ کیونکہ "شوبل" اس پر فریفتہ تھی لہذا اپنے جسم کا ایک پر ہمیشہ تجدید وفاء میں پیش کرتی رہی اور ہمیشہ ایسا ہوا بھی ہے کہ طوائفوں نے کئی نوابوں کی حویلیاں کھا لیں تو "شوبل" بے چاری تو ایک ملازمت پر تھی۔

آہستہ آہستہ پیسہ خرچ کرنے سے بےزار ہوتی گئی۔۔ تو اس بندے نے اسے کہنا شروع کر دیا کہ تم وہ عورت ہو جس کی وجہ سے میں ذہنی مریض بنتا جا رہا ہوں۔ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو مجھے خدا کے لئے چھوڑ دو۔۔ اس دوران میں نے جب بھی چاہا کہ "شوبل" کو سمجھاؤں کہ یہ معاملہ بہت غلط ہو رہا ہے اور طوائف ہونا بڑی بات نہیں وہ آباد ہو جاتی ہیں لیکن کسی کی طبیعیت طوائفوں والی ہو جائے تو وہ چاہے مرد ہو یا عورت وہ ڈستا ضرور ہے۔۔ لیکن چونکہ میں بتا چکا ہوں"شوبل" خود کو چلاک سمجھتا ہے تو وہ خاتون مجھے شدید بر بھلا کہتی اور سمجھتی کہ میں اس کو اس مرد سے بدظن کرنا چاہ رہا ہوں حالانکہ میری شدید خواہش تھی کہ "شوبل" بچ جائے۔۔ لہذا شوبل مجھ سے دور ہوتی گئی۔۔

ایک دن اچانک اس کی مری ہوئی آواز میں مجھے فون آیا اور اس نے بتایا کہ جو باتیں آپ کہتے تھے وہ سب سچ ہیں۔۔ بلکہ مجھے تو اس نے یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ اس کی شادی اور دو بچے ہیں۔۔ میں خاموش رہا کہ بچوں کی تعداد دوران عشق بڑھ چکی تھی۔۔ "شوبل" غصے اور جذبات میں آکر اس کو ملنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ لیکن وہ شاید اس سے دل بھر چکا تھا اور اس کی خالی جیب اسے اب بہت ترغیب نہیں دے رہی تھی۔۔ چونکہ شوبل ایک میچیورڈ (سنجیدہ) خاتون تھی لہذا اس نے اسے دھمکی دی کہ میں تمہارے گھر آ رہی ہوں۔۔ جس پر اس نے گھر والوں (والد، والدہ اور بیوی) جو کہ پہلے شوبل کے بھیجے تحفوں اور کھانوں کی وجہ سے اسے "بیٹی" کہتے تھے اور بیوی اسے صرف ایک کولیگ سمجھتی تھی۔۔ لہذا اس نے انہیں تیار کیا کہ یہ عورت مجھے بلیک میل کرکے پیسے لینا چاہ رہی ہے۔

آوارہ اور بدچلن ہے۔۔ جب "شوبل" آن کے گھر گھسی تو انہوں نے اس کا استقبال ایک آوارہ اور بدچلن بلیک میلر کے طور پر کیا اور اس کے باپ نے اس پر بہتان لگائے اور اس طوائف طبیعت عاشق نے بھی اس پر الزامات اس طرح لگائے کہ اس لڑکی کو سمٹ کر گھر سے نکلنا پڑا۔۔ سونے پہ سہاگہ وہ طوائف طبعیت انسان اپنے باپ اور چند غنڈوں کو لے کر دوسرے روز اس کے محلے اور پھر اس کے باپ کے دفتر پہنچ کر دھمکیاں دینے لگا۔۔ "شوبل" کی طبعیت خراب ہوگئی اور وہ خود کشی پر آ گئی۔۔ باپ نے دلاسہ دیا کہ مجھے اپنی بیٹی پر یقین ہے آپ لوگ فلاں روز میرے گھر آجائیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔

"شوبل" نے اپنے والد سے کہا کہ مجھ سے (راقم) کو پوچھ لیں کہ اس آدمی نے مجھے ان سے یہ کہہ کر ملوایا تھا کہ میں اس لڑکی سے سچا پیار کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ جب اس کے والد نے مجھ سے پوچھا تو مجھے اس طوائف طبعیت کا منصوبہ سمجھ آیا کہ کیوں اس نے شوبل کو مجھ سے یہ کہہ کر ملوایا تھا کہ یہ میرے باپ سے بھی زیادہ میرے لئے محترم ہیں تاکہ لڑکی کا اعتماد حاصل کر سکیں۔۔ لہذا میں نے اس کے والد سے وعدہ کیا کہ میں آؤں گا بھی اور وہ بات کہوں گا جو حق ہے۔۔

جب مقررہ دن پر وہ معززان شہر تشریف لائے تو انہوں نے بنک اسٹیمنٹ اٹھا رکھی تھیں جس میں لڑکی پر الزام لگایا جا رہا تھا کہ اس نے پیسے نہیں دئے یہ بلیک میل کر رہی ہے پھر بھی لڑکی کا منہ بند کرنے کو ایک لاکھ روپے دینے کو تیار ہیں۔۔ میں نے غیرت دکھائی اور ان سے کہا یہ بات پیسوں کی نہیں۔۔ آپ معززان شہر ایک بچی پر بہتان اور تہمت لگا رہے ہیں اور اس پر معافی مانگیں۔۔ جب پانسہ پلٹنا شروع ہوا تو وہ لڑکا جلدی سے میری آغوش میں گھسنا شروع ہوا اور کہنے لگا آپ بس خیر کے بندے ہیں اس معاملے کو خیر پر ختم کر دیں۔۔

میں نے عرض کی خیر تو نکاح میں ہے جس پر پھر سب بگڑ گئے اور لڑکی کی کردار کشی کرنے لگے۔۔ میں غصے سے اٹھ کر آگیا۔۔ لیکن قدرت نے ایک عجیب مذاق شروع کر دیا۔۔ "شوبل" کے خاندان ماں، بہن بھائی، خالہ، اور دیگر رشتہ داروں نے "شوبل" کو موررد الزام ٹھہرایا اور مزید تہمت اور بہتان اس پر لگانے لگے۔ کیونکہ رشتہ دار تو اپنا درد اس موقع پر نکالا کرتے ہیں مجھے دکھ تب ہوا جب شوبل کی ماں نے بھی اس کے کردار پر کیچڑ اچھالا وہ بچی بھاگ کر قرآن اٹھا لائی اور اس پر قسم کھائی کہ میں پاک ہوں۔ جسے سب نے اس کا ڈرامہ سمجھا۔۔

تب اس کے باپ نے آگے بڑھ کر قرآن اٹھایا کہ مجھے اپنی بیٹی پر یقین ہے کہ وہ پاک ہے اس دوران چند ضرورت سے زیادہ غیرتی رشتہ داروں نے اس پر ہاتھ بھی اٹھایا اور اس کے ساتھ ساتھ شوبل کے خاندان نے مجھے بھی مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا کہ میں اس طوائف طبعیت انسنان کا چونکہ استاد ہوں تو ہم مل کر لڑکیوں کو پھنساتے ہیں اور پھر استعمال کرتے ہیں۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور خود کشی کی کوشش شروع کر دیں۔۔

میرے علم میں جب یہ بات آئی تو میں نے شوبل سے گفتگو شروع کر دی۔۔ چونکہ وہ میرے ساتھ سیرت النبی کریمﷺ کے کئی لیکچر لے چکی تھی اور اکثر ایک وژنری جدت کی حامل خاتون کی طرح سوال کیا کرتی تھی کہ ہم خواتین اسوہ حسنہ پر کیسے چل سکتی ہیں۔۔ اسلام کے 5 ارکان تو ہم نبی کریمﷺ کی طرح ادا کر سکتی ہیں، لیکن ایک مرد کامل کی سیرت کو عورت اخلاقیات کے علاوہ معاملات میں کیسے لاگو کر سکتی ہے۔۔

آج وہ دن تھا اور شوبل کو یہیں تک لانا تھا۔۔ کہ نبی کریمﷺ نے خواتین کو سکھانے کے لئے اپنی ازواج پاک اور اولاد پاک اور نواسیوں کی سیرت کائنات کی آخری عورت تک کے لئے مثال بنا دی کہ یہ وہ کردار ہیں جن کو نبی نے اپنی محبت کی خاطر چنا ان سے پیار کیا، انہیں جنت کی سرداریاں نصیب فرمائیں صرف اس لئے کہ انہوں نے نبی کریمﷺکی محبتوں میں سب ستم سہے۔۔ ان پر آنے والی تکالیف پر انہیں صبر کی تلقین کی اور دنیا کو دکھایا کہ عورت پر آنے والی آزمائشیں کیا کیا ہو سکتی ہیں۔۔

آج شوبل ٹوٹ چکی تھی کیونکہ ایک پاک عورت پر تہمت اور بہتان موت سے زیادہ سخت ہے۔۔ تب میں نے اسے بتایا کہ آقاﷺکی پیاری زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ سلام اللہ علیہا نے اس آزمائش سے گزر کر تا قیامت آنے والی بیٹیوں کو سکھلایا کہ پاک دامن عورت اس منزل سے کیسے گزرے کہ اللہ اور اس کے نبی کی محبوب بن جائے۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ایک خاموش طبعیت، دھیمے لہجے میں بات کرنے والی اور اونچی آواز اور شور کو ناپسند کرنے والی ہستی تھیں۔۔ انہی ستایا گیا۔ ان کے خاوند نامدار پر آوازیں کسیں۔ ان پر شور شرابہ کیا ان کے محلے میں ان کے گھر پر ابولہب نے تماشے لگائے۔۔ حتکہ انہیں معاشی مقاطعہ پر مجبور کیا۔۔

تب اللہ کریم نے انہیں حضرت جبرائیل امین کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ اماں خدیجہ سلام اللہ علیہا سے کہیں کہ جنت میں ایک سفید موتیوں کا محل اللہ کریم نے ان کے لئے بطور تحفہ رکھا ہے اور وہ محل دوسری جنتوں سے علیحدہ بنایا گیا ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے قریب بھی شور شرابہ نہ ہوگا۔۔ سکونت اور خاموشی ہوگی۔۔ یہ ان عورتوں کے لئے قیامت تک کا سبق ہے جو اردگرد اٹھنے والے بہانوں، شرارتوں، منافقتوں کو صبر اور متانت سے جھیل جاتی ہیں۔ انہیں نبی کریمﷺ کی شفقت حضرت خدیجہ کی ادا رکھنے پر ملے گی۔۔

اسی طرح سسرال سےطلاقیں، اپنے حاملہ ہونے پر سسرال کے تشدد سے بچوں کا ضائع ہونا اور اسی تکلیف کو سہتے ہوئے جاں دینا آقاﷺکی اولاد پاک نے کرکے دکھایا۔ امیر زادیاں، شہزادیاں ہونے پر بھی خاوند کا ساتھ بھوک میں نبھایا۔۔ اس طرح کہ سینے پر مشک کے نشان اور ہاتھوں میں چکی کے چھالے خاوند کی محبت کو کم نہ کر پائے۔ حضرت سودہ سلام اللہ علیہا کی طرح شدید با وقار اور غصہ اور غیرت کی تیز ہونے کے باوجود خاوند نامدار کو اداس دیکھ کر ان سے ہنسی مذاق کرنا تاکہ سارے دن کا وہ دکھ اور تکلیف خاوند پاک سے دور ہو جائے جو دین کی خاطر انہیں پہنچ رہی ہیں۔۔ حالانکہ خود آقاﷺکی ہم عمر تھیں کوئی نوجوان خاتون نہ تھیں۔ لیکن بچوں کی دیکھ بھال اور شدید ترین مصائب والم میں ایسی باتیں اور مزاح فرماتیں کہ آقاﷺ مسکرا پڑتے اور سارا گھر کھلکھلا کر ہنستا۔۔

وہ واحد زوجہ پاک تھیں جو حضرت عمرؓ کو بھی ڈانٹ دیتی۔۔ لیکن گھر کے لئے سکھ اور سکون اور مسکراہٹ کے علاوہ ان کی ماتھے پر تیوری نہ پڑتی۔۔ یہ کردار جو خاتون نبھائے گی۔۔ اسے حضرت سودا والی شفقت نبی کریمﷺکے پاس سے نصیب ہوگی۔۔ یہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنی بیٹیوں کو سکھلایا تھا نا۔۔ کہ خاوند پر جاں چھڑکنا ہے۔۔ تبھی تو ابھی خاوند مسلمان نہی ہوا تھا کہ شہزادی نے انہیں چھڑانے کا فدیہ ماں کا ہار بھیجا۔۔ باپ کریمﷺکو بھی رلایا اور خود بھی روئین لیکن خاوند کوبچا لیا۔۔ یہ حضرت سودہ سلام اللہ علیہا نے اپنا وقت اور اپنی محبت اپنے خاوند نامدار کی خوشی کی خاطر حضرت عائشہ سلام اللہ علیہا کو دے دیا کیونکہ وہ نوجوان تھیں۔۔

اللہ کے نبی کریمﷺکے اسوہ حسنہ میں سوائے محبت، جذبہ قربانی اور خود پر دوسرے کو فوقیت دینے، اور مصیبت پر صبر کرنے کے سوا کچھ نہیں البتہ اس کا نتیجہ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں آب کوثر پینا ضرور ہوگا۔۔

میری باتیں شوبل کو سمجھ آ گئی ہیں کہ اللہ کریم نے نبی کریمﷺکی چاہنے والی وہ 17 یا 18 خواتین کیوں ان کے اردگرد رکھیں تاکہ یہ دراصل روز محشر تک آنے والی خواتین کے رویے ہیں۔۔ جن کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں، نا انصافیوں اور ظلم پر جو ان ازواج مطہرات اور اولاد پاک کے رویوں کا رد عمل تھا۔۔ وہ آقاﷺکی مھبت کا حصول کا زریعہہ تھا اور یہی نبی کریمﷺکو محبوب ہے۔۔

سنا ہے شوبل دوبارہ سے اپنے آپ کو اذیت دینے والوں کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا ہے اور مجھے یقین ہے یہ امی عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے۔۔ خود پر تہمت اور بہتان لگانے والوں کو پھر سے اپنی محبت کے اظہار میں اپنا پر توڑ کر پیش کرے گی۔۔ کیوں نہ کرے نبی کریمﷺکے چاہنے والے اپنے جسم اور روح سے ہی تو حصہ توڑ کر کسی کا نامکمل جسم، سوچ مکمل کرتے ہیں۔۔ شاید یہی اسوہ حسنہ ہے اور شوبل کی طرح بہت سی بیٹیوں کی راہ نجات۔۔

ترجمہ: اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ (اچھی سیرت) اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اوراللہ وسعت والا، علم والا ہے۔ (الاحزاب)

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib