Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Shahab e Saqib

Shahab e Saqib

شہابِ ثاقب

ایک دوست کا مضمون اس ضمن میں پڑھا۔ اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں۔ اہل علم سے اصلاح کی درخواست ہے۔

شہابِ ثاقب جسے عرف عام میں Meteoroid کہا جاتا ہے۔ یہ قرآن کی تشریح سے متضاد ہے۔ آپ نے جو تشریح فرمائی وہ عرف عام ہے جبکہ مفسرین اور اہل علم نے اس آیت کے معنی سمجھنے میں کچھ کمی بیشی کی ہے۔ اب ایک نظر پھر سے قرآن میں موجود شہابِ ثاقب کا مطلب دیکھتے ہیں۔ سورہ صافات میں ہے۔

ترجمہ: ہم نے نیچے کے آسمان کو ستاروں سے سجایا ہے۔ اور اسے ہر ایک سرکش شیطان سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ عالم بالا کی باتیں نہیں سن سکتے اور ان پر ہر طرف سے (انگارے) پھینکے جاتے ہیں۔ بھگانے کے لیے، اور ان پر ہمیشہ کا عذاب ہے۔ مگر جو کوئی اچک لے جائے تو اس کے پیچھے دہکتا ہوا انگارہ پڑتا ہے۔

شہاب کا معنی ہے دہکتا ہوا انگارہ۔ جو بذات خود دھک رہا ہو نہ کہ زمین کی حدود میں داخل ہو کر رگڑ سے روشن ہوا ہو۔ اس طرح کے Meteoroid کو جو زمیں کی فضا سے رگڑ کھا کر جلا ہو اسے قوم لوط پر آنے والے عذاب میں حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ مَّنضُوْدٍ۔ آیت 82 سورہ ہود (یعنی ایسے پتھر جو آگ سے پک کر سخت ہو گئے ہوں)۔ جبکہ شہابِ ثاقب ایک ایسا بذات خود جلتا ہوا شعلہ جو ثاقب کر دے مطلب جس چیز پر لگے اسے سوراخ کر دے۔

اب یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ساری activity اس کائنات کی سرحد پر ہو رہی ہے ناکہ زمین کی سرحد پر جہاں دوسرا آسمان شروع ہوتا ہے اور فرشتوں کی گفتگو سے شیاطین کو سن گھن لینا چاہتے ہیں تو وہاں ڈیوٹی پر موجود گارڈز انہیں ایسے شعاؤں سے مارتے ہیں جو ان میں سوراخ کر کے انہیں مار دیتے ہیں۔ ناکہ زمیں کی رگڑ سے یہ پتھر چمکتے ہیں۔

آج کے دور کی سب سے آسان مثال شہابِ ثاقب کے لئے جو دی جا سکتی ہے وہ "لیزر بیم" الیکٹرومیگنیٹ وار فیئر سے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر شہابِ ثاقب کا وہ مطلب لیا جائے جو غلط العام ہے تو یہ قدرت الٰہیہ اور آسمان کی حفاظت پر ایک اعتراض ہو گا۔ کیونکہ مندرجہ بالا سورہ سے واضح ہے کہ یہ کائنات کے کناروں پر حفاظتی حصار ہے ناکہ زمین۔ آسمان کی سرحدیں شائد 93 ارب نوری سال سے اس پار ہیں جہاں عالم مثال سے فرشتے اپنے اپنے کام وصول کرتے ہیں۔

جن وہاں سے کچھ باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں ایک جلتا ہوا انگارہ جو جسم کو چھلنی کر دے ان کو واپس زمین کی طرف دھکیلتا ہے اور مار دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جن خود آگ کی لوو سے بنے ہیں تو انہیں کون سا ایسا شعلہ ہو گا جو جلا دے؟ تو انسان مٹی سے بنا ہے لیکن مٹی کا ڈھیلا اس کی جان لے سکتا ہے۔ اور قرآن میں اللہ کریم نے فرمایا کہ بہت سے جن اور انسان جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ جب اللہ کریم فرماتے ہیں کہ

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ اُعِدَّتْ لِلْكَافِـرِيْنَ (24) البقرہ۔

ترجمہ: بھلا اگر ایسا نہ کر سکو، اور ہرگز نہ کر سکو گے، تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافرو ں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

تو ہمیں اپنے علم کو عام پتھروں تک نہی روکے رکھنا چاہئے۔ یورینیم بھی پتھر ہے اور آسمان میں ایسی کئی دھاتیں موجود ہیں جو آگ کو بھی جلا دیں یہ ہمارا سورج قریب ترین پتھر ہے جو جل رہا ہے، لاوہ جو نکلتا ہے وہ بھی معدنیات کو پگھلا کر نکلتا ہے اور یہ بھی پتھر بن جاتا ہے۔ اللہ کریم کی پلاننگ کے صدقے جائیں۔ جہاں تمام کائنات کا علم، ترقی ختم ہو جائے گی اور قیامت قائم ہو جائے گی۔

جنت اور جہنم ان سے زیادہ ایڈوانس ہوں گے۔ کیونکہ کیا خبر آنے والے دور میں ایسے انسان hybrid کئے جائیں جو 10 ہزار ڈگری پر بھی نہ جلیں۔ تو انہیں عام جلانے کا concepts کیا پریشان کریں گے؟ اسی طرح جنات علمی طور پر اور جسمانی طور پر عام انسان سے ہزاروں سال آگے ہیں۔ یہی تکبر تو ابلیس نے کیا تھا۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra