Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Sahulat Ka Zehar, Computer AI Aur Mera Zawal Pazeer Fikri Safar

Sahulat Ka Zehar, Computer AI Aur Mera Zawal Pazeer Fikri Safar

سہولت کا زہر: کمپیوٹر، اے آئی اور میرا زوال پذیر فکری سفر

ارتقاء، انحصار اور ذہنی کمزوری:

ہم نے زندگی میں حساب کتاب کے طریقوں کو بدلتے دیکھا ہے۔ اباکس کا قدیم دور، پھر ہاتھوں سے حساب کرنے والے تربیت یافتہ کمپیوٹرز، کا دور اور آج ہم مصنوعی ذہانت (AI) کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ ایک طرف تو انسانی ذہانت عروج پر ہے، ماسٹر پیس تخلیق ہو رہے ہیں، لیکن دوسری جانب ہم، یعنی صارف طبقہ، شدید سستی، کاہلی اور نیا نہ سیکھنے کی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب دفتر کے شکایت سیل میں مجھے ہاتھ سے درخواست لکھنے کو کہا گیا کیونکہ عینک بھول آیا تھا۔ میری لکھائی اور انگریزی کے اسپیلنگ دونوں پر کمپیوٹر کے آٹو کریکٹ اور کی پیڈز نے ایسا وار کیا ہے کہ شرمندگی ہوئی۔ میں نے اردو میں درخواست لکھی اور وہ بھی ایسی جیسے کسی چھوٹے بچے نے نیا قلم پکڑا ہو۔

یہ سب ہماری سہل پسندی کا نتیجہ ہے، جس نے میری نسل سے دو بڑی چیزیں چھین لی ہیں، ذخیرہ الفاظ (Vocabulary) جو ہماری یادداشت کو مضبوط کرتا تھا اور اپنے خیالات کو جملوں میں ڈھالنے کی صلاحیت۔ ہم اب تخلیق کے بجائے انحصار کر رہے ہیں۔

تخیل کا سکڑنا اور نسلِ سائیبوگ:

چیٹ جی پی ٹی کے بعد کی دنیا میں تو یہ مسئلہ نوجوانوں کے لیے اور بھی سنگین ہو چکا ہے۔ جس عمر میں انھیں تصورات، تخیلات اور پلاننگ میں "سر کھپانا" چاہیے تھا، اب انہیں بنا محنت کے تیار جواب مل جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی ذہنی وسعت کم ہو رہی ہے، سوچ کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی تخلیقی دنیا اب صرف اسکرین اور الگورتھم تک محدود ہو چکی ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ سہولت ہمارے نوجوان کو ایک ہیومنائیڈ یا سائیبوگ (Cybourg) بنا رہی ہے۔

ہم تیسری دنیا کے لوگ جو ابھی منافقت، برتری اور سبقت کی دوڑ سے باہر نہیں نکلے، اس گورے کی سہل پسندی کی طرف بھی تیزی سے مائل ہو گئے ہیں۔ تخیل کا وہ لطف، وہ حظ جو آپ اپنے لکھنے اور پڑھنے کے تجربے سے حاصل کرتے تھے، وہ تخیلاتی دنیا جو آپ کو آگے لے جاتی تھی، آج 5 سالہ بچے سے لے کر 45 سالہ پروفیشنل تک سب سے چھینا جا چکا ہے۔

اساتذہ خود AI سے تیاری کر رہے ہیں اور طلبہ کے اسائنمنٹ کو AI سے نقل کا الزام لگا کر رد کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا عجیب تضاد ہے جو ہمارے تعلیمی مستقبل کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

ہمارا خوفناک انجام: حواسِ خمسہ کا زوال:

یہ بات درست ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز ہمیں آسانی فراہم کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، لیکن میرا خوف یہ ہے کہ مستقبل کی دنیا ہمارے آج کے نوجوان کے لیے کیا مواقع لائے گی۔ کم از کم ترقی پذیر ممالک میں نئے لکھاریوں، شاعروں اور اساتذہ کی حالت زار خوفناک حد تک گھمبیر ہے۔

آنے والے دنوں میں، اگر یہی رجحان رہا، تو ہم شاید لکھنے، پڑھنے اور سوچنے کی حس سے عاری ہوتے جائیں گے۔ اگر ہم نے اپنے حواس خمسہ میں سے تین اہم حواس کا تخلیقی استعمال ترک کر دیا، تو آخر میں ہمارے پاس صرف سونگھنا اور چکھنا ہی بچے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت ان حواس سے متعلق کوئی صنعت ہوگی بھی یا نہیں۔

مجھے اپنے استاد اللہ انہیں غریق رحمت فرمائیں، کی بات یاد آئی۔ وہ اکثر پانچویں حس گنواتے ہوئے چوسنا، بول جاتے تھے۔ یہ ہم نے بار بار تصحیح کی، لیکن وہ شاید مستقبل کی خبر دے رہے تھے!

میرا اندیشہ ہے کہ جب لکھنے پڑھنے، دیکھنے اور کارخانے سب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے، تو ہم تیسری دنیا کے لوگ صرف کھیتی باڑی، گاڑیان دھونا اور بیت الخلا کی صفائی جیسے کاموں ہی کے لیے رہ جائیں گے۔

(نوٹ: مجھے انتہائی دکھ سے یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ یہ مضمون بھی میں نے AI tool Gemini سے لکھوایا ہے۔۔)

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan