Regime Change
رجیم چینج
پچھلے تین ماہ میں ملک جس بدترین معاشی بحران میں پھنس گیا ہے جس سے نہ نکلنے کا نہ ہی نبٹنے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے۔ مجھے ایک کتاب یاد آگئی اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔۔
"اقتصادی غارت گر (Confessions of an Economic Hitman) ایک کتاب کا نام ہے جو جان پرکنز نے لکھی ہے۔ یہ 2004 میں چھپی تھی۔ کتاب کے سرورق پر جو تصویر بنی ہے اس میں ایک گدھ دکھایا گیا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اور پس منظر میں امریکی جھنڈا ہے۔
جان پرکنز بوسٹن میں Chas.T.Main نامی کنسلٹنگ کمپنی میں کام کیا کرتا تھا۔ اس کمپنی میں ملازمت سے پہلے جان پرکنز کا نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (NSA) نے انٹرویو لیا تھا جو سی آئی اے طرز کی ایک اور امریکی ایجنسی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے اپنے ایک ویڈیو ٹیپ میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔
پرکنز کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کتاب 1980 کی دہائی میں لکھنا شروع کی تھی مگر دھمکیوں اور رشوت کی وجہ سے کام بند کرنا پڑتا تھا۔
اس کتاب کے مطابق پرکنز کا کام یہ تھا کہ ترقی پزیر ممالک کے سیاسی اور معاشی رہنماوں کو جھانسہ یا رشوت دے کر ترقیاتی کاموں کے لیے عالمی بینک اور یو ایس ایڈ سے بڑے بڑے قرضے لینے پر آمادہ کرے۔ اور جب یہ ممالک قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے تو انہیں مختلف ملکی امور میں مجبوراً امریکی سیاسی دباو قبول کرنا پڑتا تھا۔ پرکنز کے مطابق قرضہ لینے والے ان ممالک میں غربت بڑھ جاتی تھی اور اقتصادیات مفلوج ہو جاتی تھی۔
ہٹ مین (hit man) کرائے کے قاتل کو کہتے ہیں۔ پرکنز اپنے آپ کو Economic Hitman کہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ہم جیسے لوگوں کی تنخواہ بہت زیادہ ہوتی تھی اور ہم ساری دنیا کے ممالک کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر کا کاروبار کرتے تھے۔ ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈ کے نام پر پیسہ چند امیر ترین خاندانوں کے پاس چلا جاتا تھا جو ساری دنیا کے قدرتی وسائل کے مالک ہیں۔ یہ لوگ اپنے مقاصد کے لیے غلط اقتصادی جائزے، فریبی مالیاتی رپورٹیں، ملکی انتخابات میں دھاندلی، طوائفیں، رشوت اور دھمکی جیسے ہتھیار استعمال کرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر قتل بھی کروا دیتے تھے۔
اپنے ایک انٹرویو میں پرکنز نے بتایا کہ پہلا معاشی کرائے کا قاتل Kermit Roosevelt, Jr تھا جو چھبیسویں امریکی صدر روزویلٹ کا پوتا تھا۔ اس نے 1953 میں ایران میں محمد مصدق کی حکومت کا تختہ پلٹوایا تھا، جبکہ مصدق قانونی طریقے سے انتخابات جیت کر صدر منتخب ہوا تھا۔ مصدق کا جرم یہ تھا کہ اس نے برٹش پیٹرولیم کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا جو پورے ایران میں تیل کی پیداوار کو کنٹرول کرتی تھی۔ برطانوی MI6 اور امریکی سی آئی اے نے مصدق کی جگہ ایرانی جنرل فضل اللہ زاہدی کو شاہ ایران بنا دیا۔ اس منصوبے کی کامیابی سے ثابت ہوا کہ معاشی کرائے کے قاتل سے کام کروانے کا خیال کتنا درست ہے۔
پرکنز کے مطابق اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی بینک بھی معاشی کرائے کے قاتلوں کا ایک آلہ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے کاموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایسے ممالک کو تلاش کروں جہاں قدرتی وسائل موجود ہوں مثلاً تیل۔ اور پھر ان ممالک کے لیے عالمی بینک اور اس کی ساتھی کمپنیوں سے بڑے بڑے قرضوں کا بندوبست کروں۔ لیکن قرض کی یہ رقم کبھی بھی ان ممالک تک نہیں پہنچتی تھی بلکہ یہ ہماری ہی دوسری کارپوریشنوں کو ادا کی جاتی تھی جو ان ممالک میں انفراسٹرکچر بنانے کا کام کرتی تھیں مثلاً پاور پلانٹ لگانا اور انڈسٹریل پارک بنانا۔
ساری رقم اور سود چند مٹھی بھر خاندانوں میں واپس چلی جاتی تھی جبکہ اس ملک کے عوام پر قرضوں کا ایسا انبار رہ جاتا تھا جو وہ کبھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ ایسے موقعوں پر ہم پھر واپس آتے تھے اور کہتے تھے کہ چونکہ تم قرض ادا نہیں کر سکے ہو اس لیے تمہارا قرض "ری اسٹرکچر" کرنا پڑے گا۔ اب IMF کو گھسنے کا موقع ملتا تھا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ان سے کہتا تھا کہ ہم تمہارا قرض ری اسٹرکچر کرنے میں تمہاری مدد کریں گے لیکن تمہیں اپنا تیل اور دوسرے ذخائر ہماری ہماری کمپنیوں کو کم قیمت پر بیچنا پڑے گا اور وہ بھی بغیر کسی پابندی کے۔ یا پھر وہ مطالبہ کرتے تھے کہ اپنے بجلی اور پانی کے ذرایع ہماری کارپوریشن کے کنٹرول میں دے دیے جائیں یا ہمیں فوجی اڈا بنانے کی اجازت دی جائے یا ایسی ہی کوئی اور شرط۔ حتیٰ کہ وہ اسکولوں اور جیلوں تک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا مطالبہ کرتے تھے۔۔ "(بشکریہ اردو وکیپیڈیا)
قارئیں خود فیصلہ کریں کہ یہ معاشی دہشت گردی تھی یا صرف رجیم چینج۔۔ میرا مطالبہ ہے کہ اگر یہ واقعی معاشی دہشت گردی ہوئی ہے تو اس میں شامل نئے اور پرانے پاکستان کے کرداروں کو سزائے موت دی جائے۔۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے