Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Ramazan (2)

Ramazan (2)

رمضان(2 )

وہ کون سے کام ہیں جو یہ 700 گنا نفع کو ضائع کر دیں گے؟ اللہ کریم اسی سورہ البقرہ میں اس 700 گنا نفع کے حصول سے اگلی تین آیات میں تواتر سے ان کاموں کی تفصیل بیان فرماتے ہیں جن سے یہ صدقات، زکوٰۃ اور نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔

1۔ جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذاء دیتے ہیں۔ (262)

یعنی ایسا شخص جو مال خرچ کرکے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالٰی تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں سے ایک احسان جتلانے والا ہے۔ (مسلم)

2۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو۔ (263)

یعنی سائل سے نرم اور شفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل اور رسوا کرکے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔

3۔ اے ایمان والو! (سائل کو) احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر اپنے صدقہ و خیرات کو اس شخص کی طرح اکارت و برباد نہ کرو جو محض لوگوں کو دکھانے کیلئے اپنا مال خرچ کرتا ہے اور خدا اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ (264)

اس سے آگے اللہ کریم نے صرف ایک آیت میں ان مومنوں سے اجر کا وعدہ فرمایا اور ان کے رزق کو بڑھانے اور دگنا کرنے کا وعدہ فرمایا۔ جو مال، صدقات، زکواۃ صرف خدا کی خوشنودی کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اور سائل کا شکریہ بھی نہیں سننا پسند کرتے۔

آیت 266 بہت دل پکڑنے والی اور غور کرنے والی ہے۔ جس میں اللہ کریم فقراء کی حالت زار بیان کرنے سے قبل ہمیں اس کیفیت کے سوچنے کا حکم فرماتے ہیں۔

ترجمہ: کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرا بھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اُس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے، جبکہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔

یہ فقراء کی اصل تشریح ہے کیونکہ اس سے آگے اللہ کریم فقراء انہیں فرماتے ہیں جو زمانے کے ہاتھوں کسی آزمائش میں پڑھ گئے ہوں اور عادی مانگنے والے گداگر نہ ہوں۔

فقراء دراصل کون ہیں؟

(یہ خیرات اور صدقات) خاص طور پر ان حاجت مندوں کے لئے ہے جو اللہ کی راہ میں اس طرح گھر گئے ہیں کہ روئے زمین پر سفر نہیں کر سکتے، ناواقف انہیں خود داری برتنے اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے مالدار سمجھتا ہے۔ مگر تم انہیں ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر اور ان کے پیچھے پڑ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو کچھ مال و دولت (راہِ خدا میں) خرچ کرو گے بے شک اللہ اسے جانتا ہے۔ (البقرہ 273)

ان فقراء اور ضرورت مندوں کی کس طرح مدد کی جائے؟

1۔ اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے ستھری چیزیں خرچ کرو اور اس چیز میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہے اور اس میں سے ردی چیز کا ارادہ نہ کرو کہ اس کو خرچ کرو حالانکہ تم اسے کبھی نہ لو مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ۔ (267)

یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی ردی چیزیں خرچ نہ کرو بلکہ اچھی چیزیں خرچ کرو۔ وہ چیز جو آپ کو ملے تو آپ کو خوشی ہو ویسی چیز خدا کی راہ میں دیں۔

2۔ اگر تم اپنی خیرات اعلانیہ طور پر دو تو بھی اچھا ہے اور اگر اسے پوشیدہ رکھو اور حاجت مندوں کو دو تو وہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور تمہارے کچھ گناہوں اور برائیوں کا کفارہ ہو جائے گا (انہیں مٹا دے گا)۔ (272)

آپ کے صدقات کون ضائع کرے گا؟

ترجمہ: شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔ (268)

یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہو جاؤ گے لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے جس پر انسان بڑی سے بڑی رقم بےدھڑک خرچ کر ڈالتا ہے۔

یہ سب صرف اس تکلیف کے پیش نظر آپ سب دوستوں کی نذر کر رہا ہوں کہ جس اذیت ناک طرز معاشرت سے آج کل پاکستان گزر رہا ہے۔ وہاں اپنے ہمسائے، کسی تنگدست، کسی ایسے شخص جس کی آمدنی 50 ہزار بھی ہو اور بچوں کا بوجھ ہو اس کی مدد کر دیں۔ ہمیں کریں، یہ بھرے ہوئے فیریج، یہ 4، 5 کھانوں سے لدے دسترخوان جنہیں ہم ٹیگ کرکے لوگوں کو دکھا رہے ہیں۔ یہ سب قیامت کے دن بہت شرمندگی کا باعث ہوں گے۔

یقین جانیں ہمارے اردگرد بہت سلجھے ہوئے، سفید پوش، ریڑھی بان رکشہ چلانے والے ایسے لوگ رہ رہے ہیں جو اپنی اولاد کو گھر واپسی پر اپنا چہرہ نہیں دکھا سکتے۔ نوجوان ہوتے بچوں کے چہرے فاقوں سے زرد ہیں۔ اور بیٹیاں پرانے اور بوسیدہ کپڑوں میں بے پردہ ہو رہی ہیں جبکہ ہمارے فریج، الماریاں سامان سے اس قدر لدی ہوئے ہیں کہ انہیں بند کرنا مشکل ہے۔ اور کئی ایسے کپڑے اور جوتے جو ہم نے سالہا سال سے اپنی الماریوں میں رکھے ہیں۔ کئی گھروں کی عید کی خوشیاں اور پردہ پوشی کا باعث بن سکتا ہے۔

آج آپ کسی کا پردہ رکھیں۔ دنیا اور قیامت میں مالک آپ کا پردہ رکھیں گے۔

اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام

للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

آج لے اُن کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے

پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari