Rab e Kaba Ki Qasam Main Kamyab Ho Gaya
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا

یہ آج سے کوئی 15 سال قبل کا واقعہ ہے کہ میں اپنے شیخ سے ملنے سیالکوٹ جا رہا تھا۔ راستے میں حکومت اور صدر، وزیراعظم اور امور سلطنت سے سخت بیزار تھا ملک کی افراتفری اور اقرباء پروری پر شدید پیچ و تاب کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ نجانے یہ اولیاء اللہ کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کچھ کرتے کیوں نہی اگر یہ مملکت خداداد ہے تو حضرت خضرؑ کی طرح معاملات اپنے ہاتھوں میں لے کر گند کا صفایا کیوں نہیں کرتے۔ جب میں ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ اکیلے باہر صحن میں کرسی ڈال کر میرا انتظار فرما رہے تھے۔ شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا میں ان کے قریب گیا۔ وہ اٹھے مجھے گلے لگایا اور دوسری خالی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ گیا۔ تو باقی جو ضروری باتیں انہوں نے فرمایا تھیں کہیں اور مجھے چائے پلا کر واپسی کی اجازت دے دی۔ پھر بولے۔ سلیموزمان! سنو۔
میں رک گیا اور ان کے سامنے مودبانہ کھڑا رہا اس وقت انہوں نے اپنا پیر نکال کر اپنی چل کے اوپر رکھا ہوا تھا اور دوسری ٹانگ چل والی ٹانگ کے اوپر رکھ کر بیٹھے تھے۔ کہنے لگے۔ سلیم! یہ میری جوتی جس طرح میرے پیر کے نیچے ہے نا اس طرح اللہ والے دنیا کو رکھتے ہیں۔ اگر اس سے زیادہ خیال کریں تو پکڑ ہو جاتی ہے اور یہ ملک کے نظام چلانے والے اللہ والوں کے قابو میں اس طرح ہوتے ہیں۔ جیسے کسی شخص کے پاوں کے تلوے کے نیچے زندہ بٹیرا۔ ذراسی دباؤ اور بٹیرے کی موت۔ بس بیٹا یہ رب کے حکم میں راضی ہوتے ہیں۔ سوچو نا لوگ کتنی التجائیں کرتے ہوں جب فرعون ان کے بیٹوں کو قتل اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھتا ہوگا۔ وہ سوچتے بھی نہیں ہوں گے کہ جلد اللہ کریم فرعون کو دنیا کے لئے نشان عبرت بنا دے گا۔
بیٹا! اللہ کے ولی اللہ کے بندے سب اللہ کی مرضی کے آگے راضی بر رضا رہتے ہیں۔ یہ دونوں کی آزمائش ہوتی ہے۔ بالکل جس طرح تم موسی اوپر خضرؑ کا قصہ سوچتے آ رہے تھے۔ میں نے نگاہیں جھکا لیں اور یہ پہلی بار نہیں تھا بار ہا ایسا ہوا کہ میں کچھ سوچتا ہوا آتا اور مجھے اس کا زبانی جواب ملتا۔ ایک بار میں نے اپنے بہنوئی کو ان کے گھر میں اہل تصوف کی ایک ایسی کارستانی سنائی جو کچھ غیر اخلاقی تھی لیکن میں ان بزرگ کا نام بھول گیا۔ یہ بات تذکرہ غوثیہ میں لکھی تھی۔
میرا بہنوئی عبادتی تصوف کا قائل رہا ہے وہ ملامتی تصوف کو نہیں جانتا تھا۔ اسی شام ہم بابا جان کی خدمت میں گئے تو چائے پیتے ہوئے انہوں نے میرے بہنوئی کی طرف رخ کیا اور فرمانے لگے۔ ان کا نام فلاں ابن فلاں تھا اور پھر پورا واقعہ تفصیل سے سنایا۔ خیر میں جب ان سے مل کر واپس روانہ ہوا اور ویگن میں تھا تو مجھے اولیاء کی طاقت کے واقعات یاد آنے لگے اور پھر میری سوچ کا دھارا حضرت عمر حضرت عثمان اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ (رضوان اللہ علیہم) کی شہادت پر چلا گیا اور سوچنے لگا کہ اگر کسی ولی کے علم میں آنے والے کی باتیں اللہ ڈال سکتے ہیں تو ان کا مقام تو بہت بلند تھا۔
چلتی بس میں منظر تبدیل ہوگیا۔ میں کوفہ کی مسجد میں آخری صفوں میں بیٹھا تھا اور ایک گرج دار آواز خطبہ ارشاد فرما رہی تھی۔ دوری کی وجہ سے مجھے امام نظر نہیں آنا رہے تھے۔ خطبہ دیتے ہوئے اچانک انہوں نے ارشاد فرمایا ایک شخص جو مقاصد لے کر آیا ہے۔ اسے چاہئے اپنا کام جلد کرے۔ وہ اپنا کام کیوں نہیں کرتا۔ میں نے دیکھا کوئی 10 کے قریب مختلف لوگ منہ چھپا کر بیٹھے لوگوں کے آنے جانے اور معاملات کو دیکھ رہے تھے۔ جیسے کوئی پلاننگ کر رہے ہوں۔ جب یہ گرجدار آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی تو انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں میں کچھ اشارے کئے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی۔ جب دوبارہ میں فجر کی نماز کی سنتیں پڑھ کر انتظار میں بیٹھا تھا کہ مخصوص دروازے سے امام عالی مقام داخل ہوئے۔
آج انہوں نے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے ہوئے تھے سر پر امامہ بھی ڈھیلا باندھا ہوا تھا اور آپ ایام نوجوانی سے سر پر بغیر ٹوپی کے پگڑی یا امامہ باندھتے شاید اس لئے کہ جو کام ہونا ہے اس میں کچھ رکاوٹ نہ ہو۔ کیوں نہ جانتے ہوں۔ جبکہ ابھی آپ بچے تھے اور نبی کریمﷺ کا ہاتھ تھامے چل رہے ہوتے تو جو شجر اور پتھر آپ کریمﷺ کو سلام عرض کرتے آپ سنا کرتے تھے اور نوجوانی میں اپنے رفقاء کو دکھایا کرتے کہ یہ وہ درخت اور پتھر ہیں جو آقاﷺکی شان میں سلام پیش کیا کرتے تھے۔ آپ اپنے حجرے سے ہی آج بہت متانت بھری پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے۔
آج غیر معمولی طور پر آپ خوش ہیں۔ نامزد شروع فرمائی پہلی رکعت مکمل ہوئی اور پہلے سجدے سے سر اٹھا کر بیٹھے تھے کہ وہ مردود اٹھا اور تلوار کا وار کیا۔ تلوار نے سر پر زخم دیا۔ لیکن جن کی شان یہ ہو کہ جب جسم سے تیر نہ نکلتا ہو تو ساتھیوں سے کہیں میں نماز کی نیت کرتا ہوں جب نماز میں مشغول ہو جاؤں تو تیر نکال لینا۔ انہیں چوٹ تو آئی مگر شدت کا احساس نہ ہوا۔ لیکن جب خون ماتھے سے اترا اور چہرے پر بہنے لگا تو زور کا نعرہ لگایا "رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا" تب تک مسجد میں بھگدڑ مچ چکی تھی مردوں کو دبوچ لیا گیا تھا۔
میں پتھرائی حالت میں وہ سب دیکھ رہا تھا جسے دیکھنے کی کوئی مسلمان آرزو نہ کرے گا۔ لیکن تلوار کے وار کے بعد تو عام مسلمان بھی کلمے کا ورد کرتا ہے۔ کوئی ہائے اوئی کرتا ہے۔ یا بہت متوکل ہو تو کہتا ہے میرے اللہ نے مجھے کامیاب کر دیا۔ یہ کیسا جملہ ارشاد فرمایا کہ "میں کامیاب ہوگیا اور اس پر خدا کی قسم بھی کھائی" پھر خیال آیا یہ شیر خدا ہیں۔ انہیں ان کے سامنے آ کر کوئی مار نہیں سکتا تھا اور یہ شہادت ان کے نصیب کی تھی۔ حالانکہ شہید دو روز بعد ہوئے۔ یہ ضرب ان کے پیٹھ پیچھے سے ہی لگائی جا سکتی تھی۔ کیونکہ آج بھی۔۔
کبھی دیوار ہلتی ہے کبھی در کانپ جاتا ہے
علی کا نام سن کر خیبر کانپ جاتا ہے
اور وہ کہنا کہ وہ جو شخص جس ارادے سے آیا ہوا ہے اپنا کام کیوں نہیں کرتا۔ دراصل ابلیس کو کھلی چھوٹ دینا تھا کہ وہ تکوین میں طے شدہ کام کر لے اور اسی ضرب کو سبب بنا دیا جائے۔ میرے ساتھ صف میں بیٹھے ہوئے شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں مڑ کر دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں چونک پڑا بابا جان آپ بھی یہاں۔ وہ بولے ہاں تمہیں یہ دکھانا تھا کہ اللہ کی مرضی میں کیسے راضی رہا جاتا ہے۔ جب علم ہو تو کیسے خاموش رہ کر اسے پورا ہونے دیا جاتا ہے۔
بیٹا انہیں کا قول ہے کہ "اختیار، طاقت اور دولت ملنے کے بعد لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہوتے ہیں" سوچو نا، کسی عام بندے کو ا یہ علم ہو کہ فلاں بندہ اسے قتل کے ارادے سے آیا ہوا ہے اور روزنہ اس کا چہرے بھی دیکھے۔ تو اس کی حالت کیا ہوگی۔ یہ وہ طاقت اور اختیار کے باوجود راضی رہنا تھا۔ جس پر انہوں نے قسم کھائی کہ "خدا کی قسم میں اس آزمائش میں کامیاب ہوگیا" جانتے ہو بیٹا! لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ سچا نہیں "کہ حضرت امام کسی کافر سے لڑ رہے تھے اور جب اسے قتل کرنے لگے تو اس نے آپ کرم اللہ وجہہ کے چہرے پر ایک ناگوار حرکت کر دی اور آپ اسے چھوڑ کر کھڑے ہو گئے اور اسے جانے دیا۔ جب لوگوں نے پوچھا کہ کیوں چھوڑا تو کہنے لگے میں اللہ کی خاطر اسے مارنا چاہتا تھا جب وہ ذاتیات پر آگیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا کیونکہ میں اپنے نفس کو خوش نہیں کرنا چاہتا تھا"۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ کی اگلی اور بڑی منزل کسی کافر، منافق کو خود پر وار کرنے دینے کی ہے۔ خود پر حاوی ہونے دینے کی ہے اور اگر اسے خوبصورتی سے ادا کر لیا جائے تو زبان سے خوشی اور شکر میں یہ جملہ تو نکلے گا نا "رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا"۔۔
(فُزُتُ وَ رَبِّ الُکَعُبَہ، خدائے کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا کے معنی میں امام علیؑ کا ایک جملہ ہے جسے آپؑ نے 19 رمضان سنہ 40ھ کو سر مبارک پر تلوار لگنے کے بعد اپنی زبان پر جاری کیا۔)
يَآ اَيَّتُهَا النَّفُسُ الُمُطُمَئِنَّةُ (27)
اے مطمئن روح۔
اِرُجِعِىٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرُضِيَّةً (28)
اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔
فَادُخُلِىُ فِىُ عِبَادِيُ (29)
پس میرے بندوں میں شامل ہو۔
وَادُخُلِىُ جَنَّتِيُ (30)
اور میری جنت میں داخل ہو۔ (سورہ الفجر)