Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Quran Ke Mashhood Hone Ke Chand Chashm Deed Waqiat

Quran Ke Mashhood Hone Ke Chand Chashm Deed Waqiat

قرآن کے مشہود ہونے کے چند چشم دید واقعات

بارکھان کی خاتون کی قرآن اٹھا کر دُہائی دیتی ویڈیو دیکھی۔ پھر اس کی کنوئیں سے لاش ملی۔ کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔ لیکن میں جانتا ہوں اس کی مدد شروع ہوگئی ہے اور بدلہ کی گھڑی نے عالم بالا سے ٹک ٹک شروع کر دی ہے۔ کیونکہ دو واقعات میری زندگی میں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے مجھے قرآن ہاتھ میں اٹھائے شخص سے ڈرا دیا ہے۔

یہ واقعہ شائد 2005 یا 2006 کا ہوگا، میں ایک قومی سطح کی NGO کے ساتھ بطور مینجر ایڈمنسٹریشن کام کر رہا تھا۔ یہ NGO اس وقت پاکستان کی 5 بڑی ایسی آرگنائزیشن میں شمار ہوتی تھی جو مائیکرو کریڈٹ (یعنی چھوٹے سودی قرضے) دیا کرتی تھی۔ اور ایک ارب روپے کے قریب اس کا سندھ اور بلوچستان میں چھوٹے سودی قرضہ جات پر انوسٹمنٹ تھی۔ اس کا یہ سودی قرضہ جات کا دفتر مائیکرو فنانس کا دفتر ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کوئٹہ میں تھا۔

یہ دفتر ہمارے ہیڈ آفس سے ہمیشہ ہٹ کر کام کرتا۔ کیونکہ یہاں سود پر آنے والے پیسے کی ریل پیل تھی۔ تو یہاں فرعون اور ہامان طبیعت افسران تعینات تھے جو کم و بیش خود کو فرعون سمجھتے تھے۔ اور مجھے 2004 میں اسی مصر میں بطور موسیٰ تعینات کیا گیا تھا۔ (یعنی میں دراصل اس سودی کام کو بند کرنے بھیجا گیا تھا) لیکن مجھے معلوم نہیں تھا یہ کیسے ہوگا۔ اس دفتر میں ہر وہ کام دفتر کے چپڑاسی سے لیکر اعلیٰ افسران تک جائز تھا۔ جو ایک سود کی کمائی میں کیا جا سکتا ہے۔

ایک ہی وقت میں وہ دفتر بھی تھا اور شام کی مصروفیات وہاں کی الگ تھیں۔ وہاں کے مینجر صاحب نے ایک بلوچ قبیلہ کی طرفداری اور خود کو مضبوط کرنے کے لئے ان کے چند افراد بھرتی کر لئے۔ ان میں سے ایک نوجوان جس کی ابھی محض داڑھی مونچھیں پھوٹ رہی تھیں، بہت روشن آنکھیں اور روشن چہرہ تھا اسے رات کا چوکیدار رکھوایا تاکہ رات کو ہونے والے معاملات کا باہر کسی کو یا دفتر کو علم نہ ہو۔ یہ بچہ کچھ دنوں میں انہی معاملات کا شکار ہوگیا جو وہاں ہو رہے تھے۔

کیونکہ وہ بہتی گنگا تھی اور ہر ایک اس میں سے حصہ بقدرِ ظرف اٹھا رہا تھا۔ یہ لڑکا مجھے بہت پیارا لگتا اور مجھ سے اسے بھی انسیت تھی۔ چونکہ اس دفتر نے قرضہ جات کی وصولی کرنا ہوتیں تو ان کو 10 گاڑیاں دی گئی تھیں جن کا حساب کتاب بطور مینجر ایڈمن میں نے رکھنے کی کوشش کی تو مجھے میرے باس نے کہا کہ سلیم تم نے اپنے چہرے کا رخ بھی اس دفتر کی طرف نہیں کرنا ہے۔ میں چونکہ ضد میں تھا تو کچھ معاملات زبردستی میں نے دیکھنا شروع کئے تو اس دفتر نے ایک کرسچن خاتون کو تیار کیا کہ وہ آکر ہیڈ آفس میں شکایت لگائے۔

کہ بحیثیت ایڈمن مینجر میں گاڑیوں کے کام میں خردبرد کرتا ہوں لہٰذا چلتی گاڑی کا دروازہ کھلا اور یہ خاتون گرتے گرتے بچ گئیں۔ گواہ کوئی نہیں تھا۔ میں نے باس کو کہا اسے کہو یہ قسم کھا کر یہ بات کرے میں ہر سزا کے لئے تیار ہوں۔ اس نے قسم اٹھائی اور مجھے explanation letter ایشو کر دیا گیا (اس خاتون کے ساتھ کیا ہوا یہ آخر میں بتاتا ہوں)۔ لیکن میں نے اس کے بعد اس سودی دفتر کے معاملات کو چھوڑ دیا۔ لیکن وہاں ایڈمنسٹریشن سے متعلق جو معاملہ خراب ہوتا وہ میرے گلے پڑتا کیونکہ اس دفتر کے اسٹاف کی مجھ سے خصوصی محبت تھی۔ (وہی جو آل فرعون کی)۔

ایک روز ایک عجیب کیس اٹھا۔ مجھے خبر ملی کہ رات کے چوکیدار اور گارڈ نے رپورٹ درج کرائی ہے کہ رات کو تمام دس ڈرائیور گاڑیوں سے پٹرول چوری میں ملوث ہیں۔ یہ پہلا تنازعہ تھا جس میں تمام ڈرائیورز ہم آواز ہو گئے اور باقی مینجمنٹ اس نوجوان چوکیدار اور گارڈ کی طرفدار تھی۔ خیر جب معاملہ خوب الجھ جاتا اور بات گالی گلوچ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی تو معاملہ میرے سپرد کر دیا جاتا۔

ان تمام ڈرائیورز میں ایک ڈرائیور پر یہ الزام تھا کہ چوکیدار اور گارڈ نے اسے رات میں پٹرول نکالتے دیکھا ہے۔ جس پر یہ الزام تھا، وہ ایک خاموش طبیعت، اپنے کام سے کام رکھنے والا اور سب کی عزت کرنے والا بلوچ لڑکا تھا۔ کسی سے ضرورت سے زیادہ بات نہیں کرتا اور سب سے زیادہ اپنی گاڑی کی صفائی کا خیال رکھتا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ لڑکا ایسا ہوگا۔ تمام ڈرائیورز کا بھی مؤقف یہی تھا کہ یہ لڑکا بے قصور ہے مگر وہ قصور وار کون ہے یہ بتاتے ہوئے ڈر بھی رہے تھے۔

اب یہ لڑکا جو ڈرائیور تھا اس کا الزام یہ تھا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ رات کو یہ چوکیدار اور گارڈ تمام گاڑیوں سے ان کی ٹینکی کا nut کھول کر پٹرول نکالتے ہیں اور بیچتے ہیں۔ جبکہ وہ چوکیدار لڑکا اور گارڈ ڈرائیورز کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے۔ اچانک اس بلوچ چوکیدار نے کہا۔ "چلو قرآن اٹھاتے ہیں جو جھوٹا ہوگا اسے قرآن پکڑے۔ "

میرا ایک ٹرانسپورٹ انچارج جو اس قبیلہ کے قریبی تھا اور بہت نڈر اور بہادر لڑکا تھا مجھے اس کی بیوقوفی کی حد تک نڈر پن بہت پسند تھا کیونکہ وہ میرا ہم مزاج تھا۔ اسے بلوچی میں بولا خدا کی مار تم پر پڑے، قرآن کو بیچ میں مت لاؤ۔ وہ چوکیدار بضد ہوگیا کہ قرآن اٹھانا ہے۔ چند شریر لوگ ایکدم قرآن لے آئے۔ تمام ڈرائیورز اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے۔ وہ ڈرائیور لڑکا جس پر الزام تھا بولا "سر اگر یہ قرآن اٹھاتا ہے تو میں قرآن کی قسم نہیں کھاؤں گا۔ مجھے قرآن سے ڈر لگتا ہے۔ آپ بھلے مجھے نوکری سے نکال دیں۔ "

اس بلوچ چوکیدار نے اور گارڈ نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا لی۔ میٹنگ بوجھل اور ایک خوف کی کیفیت میں ختم ہوئی۔ ڈرائیور لڑکے کو میں نے یقین دلایا کہ تمہیں میں 3 ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اس لڑکے نے میری آنکھوں میں دیکھا اور کہا "سر، میں جھوٹ نہیں بول رہا" میں نے اسے کہا اب بے فکر ہو جاؤ قرآن خود فیصلہ کر دے گا۔

شاید ایک ماہ بھی نہیں گزرا ہوگا کہ مجھے اچانک رات کو کال آئی کہ ہمارے سودی قرضے کے دفتر میں پولیس آئی ہے۔ میں نے گھبرا کر پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ کیونکہ وہاں کچھ بھی ہو سکتا تھا تو چھاپہ نہ پڑا ہو۔ تو میرے ایڈمن آفیسر نے بتایا کہ "سر رات کے چوکیدار نے گارڈ کے پستول سے خود کو گولی مار لی ہے" اسے ہسپتال لے گئے ہیں گارڈ کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ اوہ خدایا، سب سے پہلے میرے ذہن میں وہ "قسم" گزری جو ان دونوں نے اٹھائی تھی۔ خیر میں موقع پر پہنچا۔ دوسری صبح چوکیدار کا آپریشن کر کے گولی نکال لی۔

گارڈ کی کمپنی نے بھی گارڈ کی پشت پناہی سے انکار کر دیا۔ گارڈ روتا تھا کہ میں کپڑے بدل رہا تھا اور پستول پڑا تھا اس نے اٹھایا اور لوڈ کر کے بولا اس کی گولی سے مجھے کچھ نہیں ہوتا اور اپنے پیٹ پر رکھ کر فائر کر دیا۔ جب چوکیدار ہوش میں آیا تو اس کا بھی یہی بیان تھا۔ خیر تحقیقات کے بعد گارڈ ضمانت پر رہا ہوگیا۔ لیکن ایک اور مصیبت یہ پڑ گئی کہ اس چوکیدار کا قبیلہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ گارڈ قاتل ہے۔ اور وہ اس سے بدلہ لینے کے چکر میں تھے۔ جسے پھر کوئٹہ ہی سے بھاگنا پڑا۔

میں اس چوکیدار سے ملنے گیا اس کا آپریشن کامیاب ہوگیا تھا۔ وہ باتیں کر رہا تھا میں اس کے قریب گیا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور بہت اداس لہجے میں بولا "سر میں بچ جاؤں گا؟" میں نے کہا ہاں ڈاکٹر بہت مطمئن ہیں تم جلد صحت یاب ہو جاؤ گے۔ وہ خاموش ہوگیا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر اس لڑکے کو انفیکشنز ہوئے اور اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ ایک ارب روپے کی انوسٹمنٹ، 19 ذیلی دفاتر اور ساڑھے 4 سو کا اسٹاف، ایک لاکھ سے زائد گھرانے سب کچھ 2007 یعنی اس واقعہ کے ایک سال یا ڈیڑھ سال کے عرصے میں بند ہوا۔ اور NGO کے کروڑوں روپے ڈوب گئے۔

یہاں میں اس خاتون کا بھی بتا دوں جس نے قسم کھائی کہ وہ گاڑی سے گرنے لگے تھی۔ قسم کھانے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا۔ 6 ماہ کے اندر اس پر فالج کا حملہ ہوا اور اس کا منہ شدید متاثر ہوا اور اس کے بولنے کی طاقت ختم ہوگئی۔ چونکہ اب وہ اس دفتر کے کام کی نہیں رہی تھی تو میں نے اسے اپنے دفتر کے HR کی سیکشن آفیسر بنا دیا پھر وہ کافی عرصہ میرے ماتحت کام کرتی رہی اور پھر اس کے آہستہ آہستہ کچھ الفاظ بولنے کی طاقت بحال ہوئی۔

شاید یہ 2019 کا واقعہ ہوگا میں ایک دوست کے ساتھ شراکتی معاملات میں تھا۔ اس کا علم کسی کو بھی نہی تھا۔ وہ دوست جو خود کو میرا شاگرد بھی کہتا تھا۔ ہمارے شراکتی رشتہ میں منافقت اور جھوٹ و فریب سے کام لے رہا تھا۔ آخر بہت سمجھانے کے بعد میں زچ ہوگیا اور جب میں زچ ہو جاؤں تو بس میرا آخری سہارا اللہ کے رسول اور قرآن ہوتا ہے۔ تو میں نے اسے بلا کر فیصلہ کن بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ قدرت خدا کی جب میں نے اسے اپنے گھر بلایا، وہ دن جمعہ کا تھا اور میں ڈرائنگ روم میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے سوچا جب تک یہ نہیں آتا میں کچھ قرآن پڑھ لوں۔

دروازے پر گھنٹی بجی اسے اندر آنے کا کہا اور میں نے قرآن ٹیبل پر رکھ دیا۔ باتیں جب تلخ ہوئیں تو میں نے 3 معاملات کی چھان بین کے لئے اسے کہا کیا تم قرآن اٹھا کر قسم کھا سکتے ہو؟ اس نے جھٹ قرآن ہاتھ میں اٹھا لیا اور اسے کھول کر اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ تمام کھاتے صاف ہیں۔ میں خاموش ہوگیا۔ لیکن شائد قرآن اپنا کام کر گیا۔ چھ ماہ کے اندر مجھے بیرونی روابط سے تمام معاملات کا علم ہونا شروع ہوا اور ہمارا وہ کاروبار تباہ ہوگیا۔ شاید اس کا ذمہ دار میں خود ہوں۔ کہ اگر میں قرآن کو بیچ میں نہ لاتا تو نقصان نہ اٹھاتا۔ لیکن اب شکر کرتا ہوں کہ کسی جان کی مصیبت میں مبتلا نہیں ہوا۔

دوستو، ہم سب لوگ جو اس بے چاری خاتون کی قرآن اٹھائے دہائی دیکھ رہے ہیں۔ یقین کریں ہم سب اس کا انجام بھی دیکھیں گے کیونکہ قرآن، اللہ اور رسول کی قسم اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہیں۔ خاص طور پر جب آپ اتنے تنہا ہو جائیں اور بے بس کہ قران اور خدا اور ان کا رسول ہی آپ کا واحد سہارا رہ جائیں تو یقین کریں یہ سہارے کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے۔

اللہ کریم ہمیں معاف فرمائیں کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان بے انصافیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں اور مظلوم کو اس حد تک لے جاتے ہیں جہاں وہ اپنے معاملات اللہ کے سپرد کر دیتا ہے۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar