Pasand Ki Shadi
پسند کی شادی
آج کل ایک پوسٹ اکثر نوجوان بچیاں اور خواتین ایکٹیوسٹ شئیر فرماتی ہیں کہ "حضرت خدیجہ پہلی عورت تھیں، جس نے نکاح کا پیغام نبی ﷺ کو بھیجا۔ یوں، اللہ نے ان کے ذریعے لڑکی کو خود اپنا خاوند پسند کرنے کی آزادی دی"۔
بات بالکل سچ ہے۔ لیکن لکھنے والے کو نہ تو ان عظیم ہستیوں کے احترام کا علم ہے اور نہ ہی ادب، ہر بات کو خود سے منسلک کرنے سے پہلے اگر مکمل تاریخ اور سیاق و سباق کا علم ہو تو۔ شائد زاویہ نظر تبدیل ہونے میں آسانی پیدا ہو جائے۔
"حضور نبی کریم ﷺ کو پیغام نکاح بھیجنے اور ان کو اپنا ساتھی چننے کی آزادی انہوں نے اس معاشرے میں اپنا مقام بنا کر حاصل کی تھی۔ وہ خودمختار اور اس قدر بڑی تاجر تھیں کہ جتنا پورا مکہ کے تمام تاجر مال تجارت باہر بھیجتے۔ حضرت خدیجہ کا اکیلے ان سے زیادہ سامان تجارت ہوتا۔ پھر انہوں نے اپنے ہونے والے شوہر کو اپنی دانست کے مطابق پرکھا ان کا ایک غلام تھا میسرہ ان کو آپ نے ایک کامیاب تاجر کی طرح کہا کہ آقا ﷺ جس طرح بھی خرید و فروخت فرمائیں تم صرف انہیں دیکھتے رہنا اور مجھے آ کر بتانا۔ انہیں کسی بات پر مت ٹوکنا۔
اسی طرح ایک ملٹی نیشنل بزنس وومن کی طرح آپ نے مکہ میں سے بہترین فرد جن کا لقب صادق اور امین مشہور تھا۔ انہیں خود اپنے کاروبار کے لئے دعوت دی۔ یعنی اپنی کاروباری سمجھ بوجھ اور زیرک تاجر ہونے کے ناطے صرف دل کا فیصلہ نہیں مانا اور نہ ہی آپ دل پھینک تھیں۔ لہٰذا پورے مکہ سے بہترین کاروباری معاون کا چناؤ کیا۔ یعنی best available resource کو چنا۔ جبکہ مکہ کے بڑے بڑے تاجر، سردار اور روساء آپ کو نکاح کا پیغام بھیج چکے تھے اور پھر صادق اور امین آقا ﷺ کی شخصیت سے متاثر ہوئیں۔ آج کی لڑکی 8 مرتبہ خود خاوند کے چناؤ میں دھوکہ کھاتی ہے کیونکہ اس کی پرکھ کو علم و تجربہ کی بھٹی نہیں ملی۔
بس صرف میرے شوق دا نہی اعتبار تینوں۔
آپ اور ہم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے نکاح کا پیغام بھیجنے کو آزادی سمجھتے ہیں اور ہر بیکار خاتون بس اسی ضد میں ہے کہ اسے یہ آزادی میسر ہو کہ وہ خاوند اپنی مرضی سے چن سکے۔ اس کے لئے پہلے ایک کامیاب اور خود مختار خاتون بننے کی کوشش کوئی بھی نہیں کرتا۔ آج بھی ہمارے اسی معاشرے میں کامیاب بزنس وومن، بیوروکریٹ خاتون، یا سلف میڈ خاتون ڈاکٹر انجنئیر اس آزادی کو کلچرل سختیوں اور اس تعفن زدہ معاشرہ ہونے کے باوجود enjoy کر رہی ہے۔ پہلے عورت کو خودمختار ہونے کا درس دیں۔ ورنہ زندہ درگور ہوگی۔ جو ہوش کا پہلو ہے پہلے بچیوں کو وہ سمجھائیں۔ "
کیونکہ جہاں سے من لبھاتے ہیں، ہم وہیں سے دین کو موم کی ناک کی طرح موڑ لیتے ہیں۔ اتنی بڑی مثال دینے کے لئے پہلے اس سفر کا آدھا تو آج کی نوجوان لڑکی طے کر لے جو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا 40 سال تک کی عمر میں نام و عزت اور کاروباری شہرت رکھتی تھیں۔ اور پھر اتنی بڑی تاجر ہو کر کہ جن کا مکہ میں کوئی کاروباری حریف تھا ہی نہیں پھر وہ سب مال و دولت، جاہ و جلال اپنے خاوند نامدار کے قدم مبارک پر یہ کہہ کر لٹا دیا کہ میرا سب کچھ مال و دولت اور جان آپ کی ہے جس طرح چاہیں آپ استعمال فرمائیں اور مکہ میں اعلان بھی کروا دیا کہ آج کے بعد میرے مال کے وارث میرے آقا ﷺ ہیں۔
کیا آج کی اتنی بڑی کاروباری خاتون یہ جملے اپنے خاوند کے لئے ادا کر سکتی ہے اور صرف نکاح کے بعد اپنے خاوند کو اپنے مال و دولت سیاہ و سفید کا مالک بنا کر خود اس کی خدمت میں مگن ہو سکتی ہے؟ اس کو وہ ہی سمجھ سکتا ہے جو اسکول ٹیچر (جو برائے نام اسکول کی نوکری کر رہی ہو)، ٹک ٹاکر یا فیشن ڈیزائنر یا کسی سماجی تنطیم کی تنخواہ دار سوشل ایکٹوسٹ نہ ہو بلکہ اس سوچ کو سمجھنے کے لئے شائد multi millionaire ہونا ضروری ہے۔