Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Na Ho Jab Dil Hee Seene Mein

Na Ho Jab Dil Hee Seene Mein

نہ ہو جب دل ہی سینے میں

میں نے کہا بیٹا میری بات سنو، وہ موبائیل کی اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر بولا، ماموں میں آپ کو سن رہا ہوں آپ کہیں، میں نے کہا میری طرف دیکھو تو بات کروں۔ وہ بہت سٹپٹایا اور فون صوفے پر پھینکتے ہوئے بولا، یار ماموں، کیا ہے؟ کانوں سے سن رہا ہوں آنکھوں سے تو نہیں۔ میں اس کی ڈانٹ سے تھوڑا اداس ہوا لیکن میں ہمت نہ ہارتے ہوئے اسے کہا۔

بیٹا تم نے وہ مثال نہیں سنی کہ آپ بات کریں میں "ہمہ تن گوش ہوں " اس نے ایک بدتمیز سا قہقہہ لگایا اور بولا ماموں یہ خرگوش والا لطیفہ میں نے کبھی نہیں سنا۔ اب سٹپٹانے کی باری میری تھی۔ نہیں بیٹا، یہ اردو کا محاورہ ہے" ہمہ تن گوش" یعنی میں بغور آپ کو سن رہا ہوں یا میں آپ کی طرف مکمل متوجہ ہوں۔ اور اگر اس کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ باتھ کریں میرا پورا وجود ہی کان بنا ہوا ہے۔ آپ کی بات سننے کو۔

انگریزی میں بھی تو کہتے ہیں نا I am listening to you by core of my heart، اردو میں جسے کہیں گے کہ میں دل سے آپ کو سن رہا ہوں۔ اب شائد بھانجے کو میری بات نے لطف دیا اور وہ میری طرف متوجہ ہوا۔ تو میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ Heart کسے کہتے ہیں۔ بھانجے؟ وہ بہت ہنسا اور بولا، یار ماموں، اگر آپ بڑے نہ ہوتے تو میں کہتا بونگیاں نہ ماریں ماموں۔

میں مسکرایا اور بولا۔ بتاؤ تو Heart کیا ہے؟ آرے یار ماموں، دل اور کیا، بالکل۔ ٹھیک تمہیں معلوم ہے اس ایک لفظ میں تین الفاظ ایسے ہیں جو ایک دوسرے کی تشریح اور ایک دوسرے کا اظہار ہیں؟ کیسے ماموں، دیکھو، Heart میں ایک تو Hear ہے، ایک Ear ہے اور تیسرا Art ہے، یہ تین چیزیں جب یکجا ہوں تو آپ کسی کی بات کو مکمل سننے اور سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

واہ، ماموں کمال کر دیا آپ نے۔ بھانجا چونکا، اسی لئے جب کسی کی بات دل سے سنی جائے تو پورا جسم اس کی جانب متوجہ ہونا چاہئے۔ اس کا درد اس کا مدعا اور اس کی الجھن خود بخود حل ہو جائے گی، تمہیں معلوم ہے نبی کریمﷺ سے اگر کوئی مخاطب ہوتا تو آپ کریمﷺ اس سائل کی طرف چہرہ، سینہ اور جسم کر کے پوری توجہ سے اسے سنتے۔

اور جب تک وہ اپنی بات مکمل نہ کر لیتا آپ کریم اپنا چہرہ انور اس کی جانب سے موڑنے سے گریز فرماتے، اور اس کی تمام بات کو بغیر ٹوکے مکمل ہونے دیتے۔ ایک طویل حدیث کا حصہ ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حسنِ مجتبیٰ علیہ السلام نے ابی ھالہ کے بیٹے حضرت ابن ابی ہالہ جو رشتے میں آپ کے ماموں تھے، ان سے حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاق اور احوال کے متعلق پوچھا۔

تو انہوں نے آپ کریمﷺ اخلاق حسنہ بیان کئے جن میں سے دو کا ترجمہ درج ذیل ہے۔ گفتگو فرماتے ہوئے حضور ﷺ جس طرح پہلے شخص پر توجہ دیتے تھے اور اس کی بات کو سنتے تھے، وہی توجہ آخری شخص پر بھی ہوتی تھی اور اس کو بھی اسی طرح توجہ سے سنتے۔ آپ ﷺ کبھی بھی کسی شخص کی گفتگو کو نہ کاٹتے تھے اور نہ ٹوکتے تھے۔

حتی کہ اگر کوئی شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں حد سے تجاوز کرنے لگتا تو آپ ﷺ اُس کو پیار سے روک دیتے یا خاموشی کے ساتھ مجلس سے اُٹھ کر تشریف لے جاتے اور وہ شخص خود سمجھ لیتا کہ شاید میں نے حد سے تجاوز کیا۔ بھانجے کو اپنی طرف متوجہ دیلھ کر میں بولا، بیٹا جس طرح اگر میں کہیں سے زخمی ہو کر آوں تو تم پوری طرح سب چھوڑ کر میرے زخم کی طرف توجہ دو گے۔

اسے صاف کرو گے، اور مجھے کہو گے ماموں پہلے آپ کے زخم کا علاج کر لوں پھر بات کرتے ہیں۔ اسی طرح بیٹا جب کبھی کو زخمی دل لے کر تمہارے پاس آئے تو اس کا زخم بھی صاف کرنے مرہم پٹی کرنے کے لئے اسے ہمہ تن گوش ہو کر سنا کرو۔ یہ صدقہ جاریہ ہے، سوری ماموں، آئندہ خیال رکھوں گا، کہ صرف سیدھے ہاتھ سے پانی پینا، سیدھے پاوں میں جوتا پہننا ہی سنت نہیں بلکہ کسی کو دل سے سننا بھی سنت ہے۔

بالکل اور اسے آج کے جدید دور میں لیڈر شپ کی زبان میں empathic listening کہا جاتا ہے۔ جدید معاشرے صرف اس کام کا ڈالروں میں معاوضہ لے رہے ہیں کہ اب وہاں کوئی کسی کو سنتا ہی نہیں، لہذا ایسے دل کے دکھڑے سنانے کے لئے ماہر نفسیات سے وقت لینا پڑتا ہے، اور ہمیں صرف ایک سنت زندہ کرنی ہے۔ پھر جس کی تکلیف ہم درد دل سے سن رہے ہیں اس کے درد ختم ہونے سے پہلے اللہ اور اس کا حبیب کریمﷺ ہماری دلجوئی کریں گے۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari