Mujhe Chancellor Ya Chief Justice Se Koi Umeed Nahi (3)
مجھے چانسلر یا چیف جسٹس سے کوئی امید نہیں (3)
اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو میرے والد رو دھو کر مجھے صرف 4 ہزار روپے پورے مہینے ہاسٹل کا خرچہ دیتے، اور دوسرا میں اپنے نمبر یا کوئی اور فیور لینے ٹیچرز کے پاس اس لئے نہیں جاتی تھی کہ کہیں ان کو میری مجبوری کا علم نہ ہو جائے اور پھر میرا استحصال نہ ہو۔ میں نے پوچھا 4 ہزار میں مہینہ کیسے گزارتی تھیں؟ جو اس نے کہا اس سے میری روح کانپ گئی۔ وہ بولی جب تک پیسے ہوتے صرف رات کا کھانا کھاتی۔
جب پیسے ختم ہو جاتے تو صرف پانی پیتی یا کچن میں جو بچا کچا ہوتا اسے کھا لیتی۔ یعنی لوگوں کی پلیٹوں سے جو بچا ہوتا وہ؟ میں نے سوال کیا وہ بولی جی سر۔ پھر بولی میرے بابا اور میں گلے لگ کر بہت روتے ہیں کہ میں ان کے لئے اور وہ میرے لئے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ حالانکہ انہوں نے ہمارے لئے بہت مشقت اٹھائی ہے۔ میں نے کہا تم کوئی ٹیوشن وغیرہ پڑھا لیا کرو تو وہ بولی سر جس علاقے میں ہم رہتے ہیں وہاں امیر لوگ ہیں ہی نہیں جو ٹیوشن پرھائیں۔
وہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر اور وہ بھی رکشے پر آنا شہر پہنچاتا ہے۔ جب میں ہاسٹل میں تھی تو اکثر یہ سوچتی تھی کہ اگر کالج ٹائمنگ 1 بجے تک ہوتے تو شائد میں کہیں پارٹ ٹائم جاب کر لیتی۔ لیکن 5 بجے تک کالج اور پھر ہاسٹل۔ میں صرف بھوک سے مری نہیں شائد ڈھیٹ تھی۔ اب جب یہ نوکری ملی ہے تو بابا کو کہا ہے کہ ہم قرض اتار لیں گے اور ہاں سر میں نے دو مرتبہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا ہے مگر انٹرویو میں فیل ہو جاتی ہوں۔
اس کی میری نظر میں دو وجوہات ہیں ایک میرا حوصلہ اور self confidence بالکل نہیں رہا۔ نہ کپڑے نہ جوتے ایسے ہیں کہ میں جب ان لوگوں کے سامنے جاؤں، تو وہ مجھے اس قابل سمجھیں، اور دوسرا آپ جانتے ہیں کہ پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو کے علم کے علاوہ کیا لوازمات ہیں۔ میں نے سر جھکا لیا۔ یہ لڑکی براہوئی قبائل میں سے ایک قبیلہ کی بلوچ خاتون ہے۔
ان چار مثالوں کو پیش کرنے کے بعد میں قران پر حلفیہ یہ قسم کھاتا ہوں کہ یہ جو لکھا جھوٹ نہیں۔ اور یہ بھی قران پر حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ کسی بھی فورم پر ان میں سے کسی بھی بچے کے حقیقی کوائف اور نام کبھی بھی ظاہر نہیں کروں گا۔
بات یہاں تک نہیں رکتی میں ایسے تندور والے کو جانتا ہوں جو مہینے کے آخری دنوں میں یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہاسٹل کے لڑکوں سے روٹی کے پیسے نہی لیتا جو خاموش کھڑے لوگوں کا رش کم ہونے کا انتطار کر رہے ہوں۔ ایسے دوست کو جانتا ہوں جس کو جب سے علم ہوا ہے کہ کچھ بچیاں صرف اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اپنی عزت کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں انہیں ڈھونڈتا ہے، بلواتا ہے، مدد کرتا ہے اور ان پر اپنی گھر کی بیٹیوں کی چادر ڈالتا ہے۔
یہ ملک اور دنیا ابھی تک آباد اسی لئے ہے کہ یہاں اپنی جان پر کھیل کر لوگوں کی مدد کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ میں تو صرف انگلی کٹا کر شہیدوں میں شور کرنے والا ایک شخص ہوں، بلوچستان کیا پاکستان میں میری عمر کے کسی بھی شخص کے پاس نوجوانوں کی بے یارو مددگاری کے اس سے کہیں زیادہ اور دلدوز واقعات ہوں گے۔ اور یہ واقعات لکھ کر میں اپنا اجر خراب بھی نہیں کرنا چاہتا۔
مگر کیا کروں آج کے اس نوجوان لڑکے یا لڑکی کو جو یونیورسٹی کو ایک کھیل کود کی جگہ سمجھ کر باپ کا اور خاندان کا نام روشن کرنے جاتے ہیں انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے ساتھ ان کی کلاسوں میں بیٹھے ان کے دوست جن کے چہرے نہیں بتاتے کہ ان پر کیا گزر رہی ہے۔ اگر کوئی ان کی نبض پر ہاتھ رکھے تو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ بچے اور بچیاں کن حالات سے گزر رہے ہیں۔
اب میں آتا ہوں ان سفارشات پر جو میں اپنے نوجوان طالبعلم خواتین و حضرات سے کرنا چاہتا ہوں۔ چاہتا تو ہوں کہ ارباب اختیار اس پر توجہ دیں مگر۔
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو۔
•چند اہم سفارشات۔
1۔ بلوچستان کی تمام یونیورسٹیز کی ٹائمنگ صبح 8 سے دوپہر 1 بجے تک ہونا چاہئے:
بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں بے روزگاری ایک سب سے بڑا اور گھمبیر مسلہ ہے۔ گورنمنٹ اداروں یا NGO sector کے علاوہ شاید ہی ایک فیصد کوئی صحت یا صنعت و کاروباری ایسے مواقع ہوں جہاں لوگوں کو مواقع میسر ہوں۔ اوپر سے جو بچے اور بچیاں یونیورسٹی لیول تک اپنے گاؤں یا شہروں سے آتے ہیں یا سفید پوش شہری گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ انتہائی مشکل کا شکار اس وقت ہو جاتے ہیں جب انہیں یا تو صبح 7 بجے سے شام 7 بجے تک بسوں میں سفر کر کے 9 تا 5 یونیورسٹی پڑھنے آتے ہیں۔
جس کے بعد ان کے پاس کوئی روزگار کمانے کا موقع نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے وہ تمام بچے جن کے والدین نے مشکل سے انہیں اعلٰی تعلیم کے لئے بھیجا ہوتا ہے۔ تمام خاندان مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور اس بچے یا بچی کو خاندان کی فعال مدد نہ کرنے پر طعنہ، اذیت اور بالآخر اپنی تعلیم یا تو چھوڑنی پڑتی ہے یا پھر غیر مناسب ذرائع سے تعلیم تو مکمل ہو جاتی ہے لیکن ان نوجوانوں کو اس قدر احساس کمتری ہوتا ہے کہ یہ آگے بڑھنے کی بجائے غلط راستوں کا انتخاب کر لیتے ہیں۔
میری بلوچستان کے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ یونیورسٹی ٹائمنگ کو صبح 8 بجے سے 1 بجے تک رکھا جائے۔ تاکہ یہ بچے کہیں پارٹ ٹائم ملازمتیں کر کے اپنے لئے کوئی عزت دار زندگی کا حصول کر سکیں۔ کوئٹہ میں خصوصی طور پر اور حب یا دوسرے انڈسٹریل زون میں پارٹ ٹائم ان طالب علموں کو خصوصی مواقع فراہم کئے جائیں۔ کوئٹہ شہر میں اب مالز اور دیگر ایسے بزنس پوائنٹ کھل رہے ہیں جہاں ان نوجوانوں کو پارٹ ٹائم ملازمت فراہم کی جائیں۔
ہفتہ اور اتوار کو کام کرنے والے ادارے ان دو دنوں میں ان بچوں کی خدمات حاصل کریں چاہے وہ سیلز پرسن ہو، سپلائیرز ہوں یا فوڈ چینز۔ انہیں خصوصی توجہ دی جائے۔ اس سے ان کے روزانہ کے اخراجات بھی پورے ہوتے رہیں گے اور عزت نفس بھی قائم رہے گی۔
2۔ اساتذہ کرام کا بروقت کلاس لینا یا بروقت مطلع کرنا:
جس چیز کی شکائتیں بیسیوں طالب علموں نے کی وہ یونیورسٹی میں گھنٹوں بغیر کلاس کے فارغ رہنا۔ جس کی تمام تر ذمہ داری اساتذہ کرام پر ڈالی جاتی ہے کہ اساتذہ کرام کلاس کا جائزہ لیتے ہیں اور موقع کی تاک میں ہوتے ہیں جیسے کلاس میں بچے نہ نظر آئیں یا کم ہوں دوبارہ آنے کا بہانہ بنا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بغیر پیشگی اطلاع کے چھٹی کر لی جاتی ہے جس کی وجہ سے کئی نوجوان شدید تکلیف کا شکار رہتے ہیں۔
میں حلفیہ قسم کھاتا ہوں کہ ان کے پاس ایک کپ چائے کے پیسے نہیں ہوتے اور وہ بھوکے تمام دن صبح 9 بجے سے 5 بجے تک یونیورسٹی میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ طالب علموں کی ایک ٹاسک فورس بنائی جائے جو ان ٹیچرز کو بروقت کلاس لینے پر مجبور کر سکیں۔ میں ایسے اساتذہ کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنے ڈپارٹمنٹ سے باہر بیٹھنے کے اڈے بنا رکھے ہیں جہاں پڑھنے والے طالب علم جا نہیں سکتے اور عیاش طالب علم وہاں ان کی خدمت کرتے ہیں۔ یا ان مقامات پر انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے۔
3۔ وظائف اور فیس معافی کا طریقہ کار:
ایام طالب علمی سے یہ بات روز روشن کی طرح مجھ پر آشکار ہے کہ تعلیمی وظائف، زکواۃ ان طالب علموں کو ملتی تھی جن کے تعلقات مضبوط ہوتے۔ سیاسی ورکر ہوتے یا امیر گھرانوں کے بگڑے بچے۔ آج بھی اصل ضرورت مند بچوں تک یہ وظائف، زکواۃ، ایجوکیشنل ایڈاومنٹ فنڈز نہیں پہنچتے۔ امیروں، سیکٹریوں اور طاقتور لوگوں کی اولادوں کو یہ وظائف ملتے ہیں جن کے فارم ہاوس پر، وطاق میں یا ہاسٹلوں میں پھر بیئر پارٹیاں ہوتی ہیں۔
ایسے ادارے کی کالی بھیڑوں نے بنکوں میں اپنے تعلقات اور بنک کے مرد وخواتین اسٹاف کو اپنا ساتھی بنا کر یہ پیسہ جعلی طور پر نکالا جاتا ہے جس میں بنکوں کے نوجوان پروفیشنل ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ سب لوگ ان تمام نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی خودکشیوں اور جسم فروشی کے ذمہ دار ہیں جو حالات کے مارے یہ لڑکے اور لڑکیاں کرتے ہیں۔ وہ بچے جو پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ادھوری تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی آنے والی نسل تاریکی کے گڑہوں میں گرتی جا رہی ہے۔
اس کی تمام تر ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے غیر ضروری طور پر صرف عیاشیوں کی خاطر ضرورت مندوں کا حق مارا ہے۔ حکومت اور حکومتی ارکان یہ سب نہیں روکیں گے اور نا ہی وہ لوگ جن کے منہ کو حرام خون اور لوگوں کا استحصال لگ چکا ہے ضرورت ان نوجوانوں کی ہے کہ وہ مل کر قدم آگے بڑھائیں اور اپنے مستحق ساتھیوں چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں تک وہ امداد پہنچائیں جو ان کا حق ہے۔ تاکہ نہ کسی لڑکے کو بھیک مانگنا پڑے، چور بننا پڑے اور نا ہی کسی بچی کو عزت کا سودا کرناپڑے۔
یقین جانیں یہ جو استحصال بلوچستان کے بچوں کا ہو رہا ہے اس کے زمہ داری بلوچستان میں موجود ان کے اپنی قوم و ملت کے افراد ہیں یہ باہر سے نہیں آئے۔ البتہ انہی سرکاری افسروں، یونیورسٹی کے اہلکاروں اور وظائف کے تقسیم کاروں نے بلوچستان سے باہر جائیدادیں ضرور بنا لی ہیں۔ بلوچستان کا طالبعلم پہاڑ پر مورچہ زن ہو رہا ہے۔ بیٹی یا تو خودکش بمبار بن رہی ہے یا یونیورسٹی سیکس اسکینڈل کا ایک خاموش جز۔
جبکہ بلوچستان میں موجود انہی کی قوموں کے بیورو کریٹس، اور سرکاری اہلکار بلوچستان سے باہر جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ اس کا احتساب ہونا ضروری ہے اور یہ میرا یونیورسٹی میں موجود بیٹا یا بیٹی کریں گے۔
ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں۔