Meri Naseehat Koi Haisiyat Nahi Rakhti
میری نصیحت کوئی حیثیت نہیں رکھتی
کہتے ہیں جب ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لئے آگ کا آلاو روشن کیا گیا تو تمام جن و انس و چرند وپرند تماشہ دیکھنے کو جمع ہوئے۔۔ مگر ایک چڑیا بے چین رہی، اڑتی دور سے پانی چونچ میں لاتی اور ایک قطرہ جو اس کی چونچ میں آتا اسے لا کر آگ پر پھینک دیتی۔۔ سب جانور اس کی یہ مشقت دیکھ رہے تھے۔۔
ایک چڑیا نے اسے کہا کہ۔۔ اری تیری چونچ کے پانی سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔ مت تھک۔۔ تو وہ بولی جو استطاعت مجھے مالک نے دی ہے میں اس کے مطابق کوشش کر رہی ہوں۔۔ تاکہ قیامت میں کہہ سکوں کہ جو طاقت مالک آپ نے مجھے دی تھی میں نے اتنی کوشش ضرور کی۔
وہ کون سا ذی شعور انسان ہے جو آج کے پاکستان کے حالات سے پریشان نہیں۔۔ آئےدن اداروں اور عوامی رہنماؤں کی تقاریر اور بیان دل و دماغ کو آلودہ کر رہے ہیں۔ اداروں کے اس انا کی تسکین کا مظاہرہ ایک مایوسی کی شام بنتا جا رہا ہے کہ اس کے بعد اماوس کی رات ہے۔۔ اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا ہے۔۔
جدید ریاست اب 4 بنیادی ستونوں پر ایستادہ ہے۔۔ (1)مقننہ۔ (2)انتظامیہ۔ (3)عدلیہ۔ (4)ذرائع ابلاغ اور دفاعی ادارے۔ ان سب پر موجود ایک چھت کی طرح ہوتی ہے۔ یہ ستون پہلے بنیاد فراہم کرتے ہیں اور پھر ایک مضبوط چھت کسی بھی کمزور ستون کو سہارا دیتی رہتی ہے۔ لیکن اگر چھت کا بوجھ بڑھتا جائے اور ستونوں کی بروقت مرمت اور دیکھ ریکھ نہ ہوتی رہے تو ستون چٹخنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ ان سب کی مضبوط اور باہمی ربط کا مصالحہ "آئین" کہلاتا ہے۔۔
جب جب آئین کے مصالحہ ingredients میں ذاتی تسکین اور خود نمائی کی ملاوٹ ہوتی رہیے گی۔ دیکھنے میں تو چاروں ستون کھڑے رہیں گے مگر کب تک کہ 4 ہوں یا 7 ستون سب ایک دوسرے کو سنبھالنے اور باہم مربوط ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے مخالف زور لگا رہے ہیں۔۔ ان میں دیمک یا سیلن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک دن یہ خود سر ستون اور متکبر چھت سب کچھ زمین بوس ہو جائے گا۔
نہ چھت کی اکڑ کہ وہ سب سے اعلی اور بالا ہے رہے گی نہ ریاست کے ستون اس خود سری کا بھرم بچا سکیں گے کہ ان پر ریاست کھڑی ہے۔۔ اور شاید الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔۔ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ہر زبان ہر قلم اور ہر ذہن کو خرید لیا جائے یا دھونس دھمکی سے خاموش۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غرور اور تکبر ان تمام اداروں کو کھنڈر بنا دے کیونکہ ریاست ہو یا اس کے ادارے عوام کی حمایت اور موجودگی سے ہی آباد ہیں۔۔
اگر عوام نے انہیں چھور دیا تو۔۔ انقلاب فرانس کو ابھی بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔۔ ظلم و تکبر جب حد سے بڑھتا ہے تو نظام حقیقی متکبر اور عادل اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔۔ ان کے نبی کریمﷺ نے ایک آفاقی اصول بیان فرما دیا۔۔ اور اللہ کریم اپنے نبی کریمﷺ کی بات کو جھٹلاتے نہیں۔۔
ترجمہ: حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک اونٹنی تھی، جس کا نام عضباء تھا، کوئی اونٹنی اس سے آگے نہ بڑھتی تھی، حمید راوی نے یا یہ کہا کہ کوئی اس سے آگے نہ جاسکتی تھی، پس ایک اعرابی ایک نوجوان اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور وہ اس سے آگے نکل گیا، مسلمانوں کو یہ بات بہت شاق گزری، یہاں تک کہ آپ کو معلوم ہوا، آپ نے فرمایا اللہ پر یہ حق ہے کہ دنیا کی جو چیز بلند ہو، اس کو پست کر دے۔ (بخاری)
ہر تکبر، متکبر اور فاخر کو زوال ہے چاہے وہ شخص ہو ادارہ ہو یا رہنما۔۔ طاقت جب حد سے بڑھ جائے تو پورس کا ہاتھی بن جاتی ہے۔۔