Masoom Kharashein
معصوم خراشیں
جیب اور خواہشیں کاٹ کر باپ نے اپنے گھر کے در و دیوار کو رنگ کرایا تھا۔۔ گھر بہت اجلا اجلا لگتا تھا۔۔ میاں بیوی اپنے خوابوں کی تعبیر کو دیکھ دیکھ کر اتنا مسکراتے کہ آنکھیں بھیگ جاتیں۔۔
اک روز ان کے برآمدے کی دیوار پر اس کی ننھی بیٹی نے ا، ب، پ اور A، B، C مومی رنگوں سےلکھی۔۔ کیونکہ یہی کل کائنات اس بچی نے ابھی دیکھی تھی۔۔ جواب میں اس کے چھوٹے بھائی نے تمام رنگوں سے آڑھی ترچھی لکیریں در و دیوار پر کھینچنا شروع کر دیں۔۔
ان کی کھلکھلاتی ہنسی نے ایک مقابلہ شروع کر دیا۔۔ اور گھر کی ہر دیوار پر یہ رنگین گنتی، حروف تہجی پھر آہستہ آہستہ گڑیا اور پہاڑ ندی جھونپڑی ریل گاڑی بننا شروع ہوئے۔۔
میاں بیوی کو اپنے خوابوں سے بھی حسیں یہ درو دیوار لگنے لگے۔۔ کچھ غریبی اور کچھ محبت بہت سال یہ دیواریں یونہی رہیں۔۔
کل بیٹی نے گلہ کیا بابا یہ کیا ہے۔۔ میری سہیلیاں آتی ہیں اور گھر کی دیواریں 15 سال سے ویسی ہی گندی ہیں۔۔ اب تو کالی کالی ہوتی جا رہی ہیں۔۔ سہیلیاں ہنستی ہیں کسی کو گھر نہیں لا سکتی۔۔ بیٹا بولا۔۔ بابا بہن ٹھیک کہتی ہے۔۔ گھر منحوس منحوس سا لگتا ہے۔ اسے رنگ کرائیں آپ۔۔ کچھ بھی تو آپ سے نہیں ہوتا۔۔
ماں اور باپ نے نگاہیں جھکا لیں۔۔ پھر باپ نے سر اٹھا کر کہا۔۔ بالکل ٹھیک کہتے ہو بیٹا۔۔ جلد رنگ کرا لیں گے۔۔
باپ اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا۔۔ انہیں کیسے سمجھاؤں کہ ان دیواروں پر چھپی معصومیت ان کے نوجوان خوابوں پر کھینچی خراشیں ہیں۔۔ جو شائد چھپ تو سکتی ہیں مٹ نہیں سکتیں۔۔