Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Main Astaghfar Kyun Karoon?

Main Astaghfar Kyun Karoon?

میں استغفار کیوں کروں؟

بابا جی۔ او بابا جی۔ یار بابے۔ سن نہ! میں نے بیتابی سے انہیں آوازیں دیں۔ لیکن وہ منہ میں سگار سے کھیلتے ہوئے کسی اور دنیا کا لطف لے رہے تھے۔

میری آواز جب اونچی ہوئی تو چونک کر میری طرف ناگواری سے دیکھا اور بےزاری سے بولے۔

ہونہہ۔ کیا ہے؟ الو آتے ہی شور مچا دیتا ہے۔ یہ بھی نہیں دیکھتا۔ بندہ کہیں مصروف ہے۔

اوہ بابا سوری۔ سوری یار۔ لیکن بات ایسی ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی۔ ایک الجھن سی ہو رہی ہے۔

بابے نے نیم خوابیدہ آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بھوؤں سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ کیا ہوا؟

یار بابا۔ نبی تو معصوم ہوتے ہیں نہ؟

بابے نے اپنے ڈیلے نکالتے ہوئے۔ پوچھا تم کو شک ہے کیا؟

نہی۔ نہی۔ یہی تو الجھن ہے۔ اگر نبی معصوم ہوتے ہیں اور گناہوں سے پاک ہوتے ہیں تو۔

تو! کیا۔ بابا خمار سے نکل کر سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔

تو۔ پھر حضور نبی کریم ﷺ دن میں سو بار استغفار کیوں فرماتے تھے؟ جیسا کہ حدیث پاک ہے۔ کہ "رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو، کیونکہ میں دن میں سو دفعہ توبہ کرتا ہوں" (مسلم)

اب بابا سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور چہرے پر سنجیدگی آ گئی۔ بولا۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک شرعی اور دوسرا محبوبی۔ کون سا بتاوں؟

میں نے حیرت سے پوچھا "محبوبی" کیا ہے؟ لیکن بابا دونوں بتا دے تو مہربانی ہوگی۔

بابا مسکرایا اور بولا پہلے شرعی بتاتا ہوں۔

حضرت عائشہ نے یاد ہے کیا فرمایا تھا جب صحابہ کرام نے آقا ﷺ کے اخلاق کے متعلق پوچھا تھا؟

جی انہوں نے فرمایا تھا۔ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا۔ جو کچھ اس میں ہے وہ آپ کریم ﷺکے اخلاق ہیں۔ یعنی جو حکم قرآن مجید میں آیا ہے سب سے پہلے آقا ﷺنے اس پر عمل کیا۔ تو قران میں استغفار کی کم و بیش 68 بار تاکید ہے، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آقا ﷺ اس تاکیدی حکم پر سب سے پہلے عمل پیرا نہ ہوں۔ دوسری بات اللہ کریم نے آقا ﷺ کو "عبدہ" فرمایا ہے۔

"عبد" اور "عبدہ" کا فرق یوں سمجھو کہ ایک غلام عام ہوتا ہے۔ ایک کچھ خاص کاموں کے لئے ہوتا ہے۔ ان سب کے عربی " عبد " کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک خاص الخاص غلام ہوتا ہے۔ جس کو اپنے مالک کی خوابگاہ، اس کے پرسنل استعمال کی چیزوں تک، کھانے پینے، دوائی اور کپڑوں تک کا پتہ ہوتا ہے۔ آج کل جسے تم "پرائیوٹ سیکرٹری" کہہ سکتے ہو۔ تو نبی کریم ﷺ اللہ کریم کے خاص الخاص بندے ہیں۔ جن کو معراج کے ذریعہ وہاں تک بلایا اور ملوایا گیا جہاں تک ربّ کی کوئی مخلوق نہیں پہنچ سکتی۔ تو اس لحاظ سے آقا ﷺ سب سے پہلے اللہ کا حکم بجا لانے والے ہیں۔ اور استغفار اظہار بندگی کا سب سے بڑا اور مخلص ذریعہ ہے۔

اب آ جاؤ۔ "محبوبیت" پر۔ بابے کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ استغفار کا محبوبیت کا پہلو یہ ہے کہ۔ اللہ کریم کو کوئی عمل اس وقت تک قبول ہی نہیں جب تک وہ نبی کریم ﷺ نے ادا نہ کیا ہو۔ جو نبی کریم ﷺکے زبان و عمل سے ادا ہوا۔ وہ عمل اللہ کریم کے پاس محبوب ہے۔ ورنہ اللہ بے نیاز ہے۔

میں نے پوچھا بابا جی۔ کیسے؟

تم جانتے ہو نہ۔ کہ وضو کے لئے پاک پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور نبی کریم ﷺکے لئے صحابہ کرام جس پاک پانی کو وضو کے لئے لایا کرتے۔ وہ آپ کریم ﷺکے وضو کے بعد طاہر ہو جاتا اور صحابہ کرام اسے زمین پر نہ گرنے دیتے۔ کیونکہ حضور کو چھو لینے کے بعد وہ اب تبرک بن چکا ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام حضور کی کسی بھی چیز کو ناپاکی کی حالت میں نہ چھوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس چیز کو حضور چھو لیں وہ متبرک ہو جاتی ہے، حضرت اسلع بن شریکؓ اور ادبِ مصطفی ﷺ کا یہ عالم تھا کہ آپ کی ذمہ داری حضور کے اونٹ پر پالان (seat) کسنا تھا۔ لیکن حالت جنابت میں اس پالان کو اس کی رسی کو بھی نہیں چھوتے تھے۔

اسی طرح حضرت ابو ھریرہ کو جب غسل کی حاجت ہوتی تو اس راستے پر نہیں چلتے جس پر حضور کا گزر ہوتا۔ اور اگر کہیں آقا ﷺ آ رہے ہوتے تو حضرت ابو ھریرہ چھپ جاتے کہ یہ بے ادبی ہے۔ تو جب استغفار کے الفاظ حضور نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک کو چھو کر ادا ہو گئے۔ تو اب یہ صرف حکم خداوندی ہی نہیں رہا بلکہ ادائے محبوبی بھی ہوگیا۔ اور اللہ کریم کو نبی اقدس کی اداؤں اور افعال سے اس قدر پیار تھا کہ آپ کریم ﷺ کی سنتوں کو اللہ نے تاقیامت مسلمانوں کے فرائض بنا دیا۔ اور ان کے نوافل کو مسلمانوں کے لئے سنت بنا دیا۔

بابا بولا۔ اب آ جاؤ کہ کیوں 100 مرتبہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ میں استغفار کرتا ہوں۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہو گئے، تیسری یا چوتھی رات آپ نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کر دی جائے۔ (مسلم، الترغیب فی صلاة التراویح)

اس سے ثابت ہوا کہ اگر کسی کام کو نبی کریم ﷺ تین دن کر لیتے تو وہ فرض ہو سکتا تھا۔

اسی طرح جب نماز فرض ہوئی تو حضور نے بیت المقدس کو قبلہ بنایا اور کعبہ کو 16 یا 17 ماہ چھوڑ دیا۔ اور صحابہ کرام نے بھی کعبہ شریف سے منہ موڑ لیا۔ لیکن جب دوران نماز آقا ﷺنے صرف اپنا چہرہ اقدس دو یا تین بار آسمان کی طرف دل میں یہ حاجت لے کر اٹھایا کہ کعبہ قبلہ بنا دیا جائے تو اللہ کریم نے اپنے محبوب کی خواہش میں اتنی جلدی فرمائی کہ دوسری نماز تک کی مہلت نہ دی اور اسی نماز میں رخ بیت اللہ کی طرف پھیرنے کا حکم دے دیا اور ساتھ ہی تاقیامت مخلوق کو جتلا دیا کہ یہ اللہ کریم نے نبی کریم ﷺ کی خوشی کی خاطر کیا ہے۔

ترجمہ: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار آپ کا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں آپ کی خوشی ہے، ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو۔ (البقرہ)

صحابہ کرام جانتے تھے کہ اطیعو اللہ اور اطیعو رسول کے حقیقی معنی کیا ہے۔ کہ جب کوئی حکم اللہ کا آ جائے اور رسول اس کی تشریح جس طرح سے فرما دیں اب اس کا کرنا دگنا اجر رکھتا ہے۔

بابا بولا۔ تم خود سوچ لو جس عمل کو نبی کریم ﷺ دن میں 100 مرتبہ کرتے ہوں گے وہ اللہ کو کتنا محبوب ہوگا۔ کسی عمل کے کرنے یا صرف آنکھ اٹھا کر دو یاتین بار دیکھنے پر اللہ کریم اپنے محبوب کی ادا کو فرض کر دیتے ہیں تو جس عمل کو نبی کریم ﷺ دن میں 100 مرتبہ فرماتے ہوں اس کی فرضیت اور مسلمانوں پر کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہو کیا حکم ہوگا؟

حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو حکم خدا وندی ارشاد فرمایا کہ استغفار کرو۔

ترجمہ: پس میں نے کہا اپنے رب سے بخشش مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ آسمان سے تم پر (موسلا دھار) مینہ برسائے گا۔ اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنا دے گا اور تمہارے لیے نہریں بنا دے گا۔ (سورہ نوح)

یہ جو اجر ہے نہ خوب بارشیں ہوں گی، مال اور اولاد نصیب ہوگی یہ صرف حکم خدا وندی ماننے کا ہے۔ اسی طرح سے جب نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس سے اللہ کریم نے امت کو استغفار کا حکم دیا تو اس میں دو نعمتیں رکھ دیں۔

ترجمہ: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب! آپ ان میں تشریف فرما ہو۔ اور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ استغفار مانگ رہے ہیں۔ (الانفال)

اگر نوحؑ کی طرح صرف اللہ کے فرمان کے مطابق استغفار کی جائے تو اللہ معاف کرنے کے ساتھ دنیاوی نعمتیں مثلاََ بہترین زراعت و باغات، پانی کی اور اولاد کی فراوانی عطا فرمائیں گے۔ لیکن اگر نبی کریم ﷺ کے سنت پر عمل کریں تو اللہ کریم نے استغفار کے دو فوائد جو دنیاوی فوائد کے علاوہ ہیں ان کا وعدہ فرمایا ہے۔ یعنی ایک تو دنیا و آخرت میں معاف فرمائیں گے۔ اور دوسرا نبی کی سنت پر عمل کر کے استغفار کرنے والے بندے کو رب اپنا محبوب بنائیں گے۔ یہ نعمت گزشتہ انبیاء کے علاوہ کسی قوم کو نہیں دی گئی۔ کہ وہ امت اللہ کی محبوب ہو جائے۔

ترجمہ: کہہ دو اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو تاکہ تم سے اللہ محبت (محبوب) کرے اور تمہارے گناہ بخشے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل عمران)

بابا بولا۔ اب بتاو۔ نبی کریم ﷺ کے اس کثرت سے استغفار کا مطلب سمجھ آیا، کہ قران آقا ﷺ کی شان بیان فرماتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ مومنوں کی فلاح اور بخشش کے حرص کی حد تک چاہت رکھتے ہیں۔

ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے (حریص) ہیں، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (التوبہ)

بابا بولا۔ دیکھو نوجوان! نماز اللہ کے لئے ہے، جو فرض ہے۔ درود پاک اللہ کی سنت ہے۔ جس میں ہمنوا فرشتے اور تمام مخلوق ہے۔ ان دونوں اعمال کا ایک پروٹوکول ہے کہ ان کے لئے طہارت فرض ہے۔ جبکہ استغفار وہ وظیفہ ہے جو گناہ کی حالت میں، شر کی حالت میں، ناپاکی کی حالت میں زیادہ مقبول ہوتا ہے۔ اور ایسے استغفار کی قبولیت اللہ کے ہاں زیادہ اور کنفرم ہے جو گناہ کی ناپاکی کے دوران کیا جائے۔

کیونکہ جب بندہ استغفار کرتا ہے تو وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اب اسے معاف کرنے والا صرف اور صرف خدا کی ذات ہے۔ لہٰذا اس وقت ہو سکتا ہے کہ انسان جسمانی طور پر ذہنی طور پر گناہ آلودہ ہو مگر دل اور روح کے طور پر وہ اس وقت انتہائی پاکیزہ اور منافقت سے پاک ہوتا ہے جب وہ استغفار کرتا ہے۔

اسی لئے اللہ کریم نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ

ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (النساء)

اب تم خود بتاؤ۔ تم نوجوان کہتے ہو پتہ نہیں نماز میں دل نہیں لگتا، جب درود پاک پڑھتے ہیں تو کیفیت نہیں بنتی۔ کیسے بنے؟ اللہ اور اس کا رسول چاہتے ہیں کہ درود پاک میں اللہ اور فرشتوں کے ہم نوا بننے سے قبل، نماز میں اس کی حضوری حاصل کرنے سے قبل جس طرح وضو کر کے جسم پاک کرتے ہو۔ اسی طرح پہلے روح اور نفس کو استغفار کا غسل دو تو کیفیتیں تبدیل ہوں۔ کیونکہ اللہ کو وہ کلمہ بہت محبوب ہے جسے اس کے محبوب نے ادا کیا۔ اب جو اسے ادا کرتا ہے رب اس پر فدا ہوتا ہے۔

کی محمّدﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

"أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ"۔

Check Also

Aankh Ke Till Mein

By Shaheen Kamal