Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Leadership Training

Leadership Training

لیڈر شپ ٹریننگ

2009 میں مجھے دفتر کی جانب سے ایک لیڈر شپ کی ٹریننگ پر بھیجا گیا۔ یہ دو روزہ ورکشاپ فرینکلن کووی پاکستان کی جانب سے ترتیب دی گئی تھی، اور ڈاکٹر اسٹیفن کووی کی مشہور زمانہ کتاب 7habits of highly effective people یعنی پر اثر افراد کی سات عادات پر مشتمل تھی۔ اس ٹریننگ کو میڈم عندلیب عباس جو اب PTI کا حصہ ہیں کنڈکٹ کر رہیں تھیں۔ میں اس خاتون کے بطور معلم یا ٹرینر بہت مداح ہوا۔ خیر یہ ٹریننگ میرے دل پر نقش ہوگئی۔

کیونکہ اس ٹریننگ نے میری 21 سالہ تعلیم و تربیت کو جدید زبان اور اسلوب عطا کیا۔ اور ان عادات پر عمل کرتے ہوئے آئیندہ آنے والے سالوں میں میں نے خوب کامیابی سمیٹی۔ اس ٹریننگ کا بنیادی عنصر کردار سازی ہے۔ جو میں 21 سال سے قرآن اور سیرت النبی کریم ﷺ کو پڑھتے ہوئے دیکھ اور سیکھنے کی کوشش میں تھا۔ لیکن میں اس میں جدید ذہنوں کو قابو کرنے میں ناکام تھا، تو مجھے اپنے مذہب کی اخلاقیات کے اظہار کے لئے جدید زبان اور طرز مل گئی۔

کیونکہ اچھی سے اچھی بات پر دین کا لیبل لگا دیں تو وہ بے قدر ہو جاتی ہے اور فضول سے فضول موٹیویشنل محاورات کے نیچے کسی انگریز چرسی، عیاش کا نام لکھ دیں جسے ساتھ کا ہمسایہ بھی نہ جانتا ہو وہ وائرل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اچھائی اور کردار جسم میں جذب ہو کر نظر آتے ہیں لیکن اچھی بات کو قے کی طرح یا نسوار یا پان کی پیک کی طرح دیوار (wall) پر پھینک دیں تو سب آتے جاتے کو معلوم ہو جاتا ہے۔ اور ہم الٹی کے شوقین ہیں تاکہ نام ہو کہ یہ کام فلاں نے کیا ہے۔ ہم چھپ کر خیر کرنے کے شوقین نہیں رہے جب تک اپنی ذات کو وائرل نہ کر لیں۔ دسترخوان سے لیکر پرائیوٹ کپڑوں تک سب کچھ کا حال Wall جانتی ہے۔

خیر تو اس ٹریننگ میں ایک ایسے انسان کا ذکر ہوا جسے دوسری جنگ عظیم میں نازی کیمپوں میں 3 سال بدترین تشدد سے گزرنا پڑا۔ لیکن چونکہ اس کے پاس کردار تھا اور زندگی کا مقصد وہ بچ کر نکل آیا۔ بعد میں اس نے ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی، جس میں وہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے کیمپ میں جب کسی کے مرنے کا وقت قریب آتا تو ہمیں علم ہو جاتا کہ یہ بندہ بس اب چند دن کا مہمان ہے۔ اور اسی طرح ہوتا، پہلے وہ سست ہوتا پھر بیمار یا زخمی اور پھر یا غیر معیاری علاج سے مر جاتا یا اسے آگ کی بھٹی میں زندہ جلا دیا جاتا۔

اور پھر وہ خود ہی اس کا جواب دیتا ہے کہ انہیں کیسے علم ہو جاتا کہ یہ بندہ مر جائے گا۔ وہ اس طرح کہ اس کی زندگی کا مقصد ختم ہو جاتا اور وہ کہتا کہ میں کیوں جیوں، امید ٹوٹ جاتی اور مستقبل سے مایوسی ہو جاتی۔ یہی بات بس ان کا خاتمہ بن جاتی۔ اس شخص کا نام "ویکٹر فرینکل" تھا۔ اس نے اپنی مشہور زمانہ کتاب "men search for meaning" لکھی جو 1946 میں پبلش ہوئی۔ اس کتاب نے شائد لاکھوں لوگوں کی زندگی تبدیل کی ہے اور متواتر کر رہی ہے۔ اس نے ایک سائیکولوجی میں ایک نئی اصطلاح "لوگو تھراپی" کو متعارف کرایا۔ یہ نفسیاتی طریقہ انسان کے وجودی تجزیہ اور زندگی کے معنی تلاش کرنے پر انحصار کرتا ہے۔

آج 15 سال بعد میں اس کتاب کا ذکر کیوں کر رہا ہوں اور اسے نوجوانوں حتٰکہ پاکستانی ادھیڑ عمر اور خاص طور پر بوڑھوں کے لئے recommend کرنے کی وجہ

• پاکستانی نوجوان اپنی سمت کھو چکا ہے۔

• اس وجہ سے چاہے لڑکی ہو یا لڑکا مستقبل کے بارے میں شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔

• اس مستقبل کے اندیشے نے نوجوان مرد و عورت سے توکل اور مذہب جو جسم میں جذب ہو چھین لیا ہے اور اس کے بدلے اپنی اچھی تصویر کشی کے لئے مذہبی اقوال و افکار کی ابکائیاں آپ کو آج کے نوجوان کے سوشل میڈیا اور زبانی کارناموں میں خوب دکھائی دیں گی۔

• دو قسم کے مرض بائی پولر ڈیزیز bio poler disorder e اور شیزو فرینا نے 80 فیصد نوجوانوں کو قابو میں کر لیا ہے۔ آپ یقین کریں کہ اب لڑکوں اور لڑکیوں میں سائیکوپیتھز جنم لے رہے ہیں جو پیدائشی طور پر سائیکوپیتھز ہیں۔ اور اس کے ذمہ دار ہم والدین ہیں جن کی خواہشات ابھی تک ختم نہیں ہو رہیں۔

• مستقبل کی فکر اور اس میں غلط راستوں کا انتخاب نوجوانوں میں خودکشی کا بڑھتے رجحان کا باعث ہے کہ انہیں کسی بھی تعلق میں اپنی زندگی کی ترجیحات کو سامنے نہیں رکھا۔ ایک زمانہ تھا کہ ہسٹیریا ایک خواتین کی بیماری سمجھی جاتی تھی لیکن اب یہ مردوں کو بھی لاحق ہے۔

یہ وہ چند عوامل ہیں جس وجہ سے میں آپ سب کو اس کتاب کو پڑھنے کی دعوت دوں گا یقین جانیں یہ 200 صفحات کی چھوٹی سی کتاب آپ کی زندگی میں خاطر خواہ تبدیلی لائے گی۔ اور آپ اسے پڑھ کر سوچنے پر ضرور مجبور ہو جائیں گے کہ آپ نے خود پر کتنا ظلم کیا ہے۔

(یہ کتاب اب اردو ترجمہ کے ساتھ بھی شائد مارکیٹ میں ہے۔)

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi