Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Kis Ke Hath Pe Apna Lahu

Kis Ke Hath Pe Apna Lahu

کس کے ہاتھ پر ڈھونڈوں اپنا لہو۔۔

ثنا یوسف کا مرنا۔۔ اللہ اسے غریق رحمت فرمائیں۔۔ کوئی مولوی یا معاشرتی نفرت کا باعث نہیں ہوا یہ ایک الگورتھم ہے جو تربیت کی کمی کی وجہ سے موت تک لے کر جاتا ہے اور یہ دونوں طرف کام کرتا ہے۔۔ میرا مطلب مرد اور عورت میں۔۔ ثناء یوسف اپنے الگورتھم کا شکار ہوئی ہے۔۔ معاشرے نے اسے مشہوری اور عزت عطا کی تھی۔۔ اسی وجہ سے عدالت اور قانون ہیں کہ جب تربیت کے فقدان زندگی کے راستے میں غلط فیصلے کراتے ہیں۔۔ تو اس کا خمیازہ ان ماں باپ کو بھگتا پڑتا ہے جنہیں یہ خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان سے غلطی کہاں ہوئی۔۔ دو خوبصورت اور ناداں روحیں اب اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔۔ ثناء بھگت چکی۔۔ لڑکا اب بھگتے گا۔۔ دونوں ہی نوجوان دونوں ہی خوبصورت۔۔

کسی گاوں میں ایک درویش داخل ہوا تو اس گاوں کے نوجوان کتے اور چھوٹے کتے اس پر بھونکنا اور اس کے کپڑے پکڑنا شروع ہوئے۔۔ اس نے ان سے درگزر کیا۔۔ لیکن آگے چل کر اس نے دیکھا کچھ عمر رسیدہ کتے دیوار کے سائے میں آرام کر رہے تھے۔۔ اس نے پتھر اٹھا کر انہیں مارنا شروع کر دیا وہ ہڑبڑا کر بھاگے کسی نے پوچھا کہ ان کتوں کو کیوں مارا جو سو رہے تھے۔۔ تو درویش بولا۔۔ وہ نوجوان کتے جو مجھ پر بھونکتے رہے۔ ان کی تربیت انہوں نے کی ہے۔۔ کل اگر کوئی ان نوجوان کتوں کو پتھر مارے گا تو اس کے ذمہ دار یہ بڈھے کتے ہیں۔۔

یہ کتابی مثال ہے ذمہ داری کے تعین کی۔۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی والدین اولاد کو قاتل یا مقتول بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔۔ لیکن دور جدید کی سہولیات کو بے دریغ استعمال اور بلا روک ٹوک ہر چیز جائز سمجھنا اس الگورتھم کا حصہ ہے جو انجام کا فیصلہ کرتا ہے۔۔ مجھے اس بچے سے بھی ہمدردی ہے کہ ایک جذباتی فیصلہ اور خود سری نے اس کا مستقبل تباہ کر دیا۔۔ دو بچے نہیں دو خاندان تباہ ہو گئے۔۔

چاہے ثناء یوسف ہو یا وہ قاتل بچہ قصوروار ہم والدین، ریاست اور ریاست کے ستون ہیں جنہیں اپنی مصروف زندگیوں اور اپنی عیاشیوں کے درمیان اپنی اولاد کی تربیت یا نوجوان معاشرے کے اصول متعین کرنے اور انہیں ان کی حدود سمجھانے میں دیر ہو رہی ہے۔۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood