Ittefaq Mein Barkat, Aik Purani Sharab Nayi Botal Mein
اتفاق میں برکت، ایک پرانی شراب نئی بوتل میں

بچپن میں ایک کہانی سنی اور پڑھی تھی شاید نصاب میں تھی کہ "اتفاق میں برکت ہے" کہانی کچھ ہوں ہے۔۔
بہت پرانے وقتوں کی بات ہے، شہر میں مہنگائی اور گزر بسر کی دشواریوں نے ایک غریب خاندان کو پریشان کر رکھا تھا۔ یہ خاندان، جس کی سربراہی ایک سمجھدار بزرگ کر رہے تھے، نے فیصلہ کیا کہ وہ جنگل کا رُخ کریں گے تاکہ وہاں پھل اور شکار سے گزارا ہو سکے اور کوئی جھونپڑی بنا کر زندگی گزار لیں۔
وہ جنگل پہنچے اور ایک گھنے، بڑے برگد کے درخت کے نیچے ڈیرہ لگا لیا۔ گھر کے سربراہ نے خاندان کے افراد میں کام تقسیم کیا تاکہ کوئی وقت ضائع نہ ہو۔
ایک بیٹے کو خشک لکڑیاں لانے کا کہا۔ دوسرے کو پانی کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ تیسرے کے ذمہ آگ جلانے اور کھانا پکانے کا کام لگایا گیا اور چوتھے کو شکار پر مامور کیا۔
سبھی بیٹوں نے فوراً اپنے والد کے حکم پر لبیک کہا اور اتفاق کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے لگے۔ ہر کوئی اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔
برگد کے درخت پر ایک فاختہ بیٹھی تھی جو یہ سارا منظر بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ فاختہ نے خاندان کے سربراہ سے پوچھا: "تم لوگ کیا منصوبہ بنا رہے ہو؟"
خاندان کے سربراہ نے جواب دیا: "شہر میں قحط اور مہنگائی کی وجہ سے گزارہ مشکل ہوگیا تھا، اس لیے ہم جنگل میں آگئے ہیں۔ یہاں شکار کرکے گزارہ کریں گے، جیسے خرگوش، ہرن اور تم جیسی فاختہ کا شکار کریں گے"۔
فاختہ نے کہا: "اگر میں تمہیں مہنگائی کا حل بتا دوں تو میرا شکار چھوڑ دو گے؟"
خاندان کے سربراہ نے اثبات میں جواب دیا۔ مگر انہیں حیرت بھی ہوئی کہ ایک پرندہ مہنگائی کا حل کیا بتائے گا۔
فاختہ نے کہا: "وہ سامنے والے درخت کے نیچے خزانہ دفن ہے! تم لوگ وہ لو اور شہر واپس چلے جاؤ اور ہم جانوروں اور پرندوں کو امن و امان سے رہنے دو"۔
خاندان کے سربراہ نے اپنے بچوں سے مشورہ کیا اور سب نے مل کر وہ جگہ کھودنی شروع کی۔ بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی کیونکہ وہ سارے اتفاق سے کام کر رہے تھے۔ جلد ہی انہیں وہاں سے سونے سے بھرا ہوا ایک مٹکا ملا۔ انہوں نے فاختہ کا شکریہ ادا کیا اور شہر کا رُخ کیا اور خوشحالی کی زندگی گزارنے لگے۔
نااتفاقی کا انجام۔۔
اُن کے پڑوسیوں کو جب یہ علم ہوا کہ یہ غریب لوگ اچانک کیسے امیر ہو گئے تو وہ حسد میں مبتلا ہو گئے اور چاپلوسی سے امیر پڑوسی سے خزانے کا راز پوچھا۔ سادہ لوح پڑوسی نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔
لالچ میں آکر پڑوسی خاندان فوراً اپنے تمام افراد کے ساتھ اسی جنگل میں پہنچ گیا۔ پڑوسیوں کے سربراہ نے بھی اپنے بیٹوں کے ذمہ وہی کام لگانے چاہے جو پہلے خاندان کے سربراہ نے لگائے تھے۔ لیکن اس خاندان میں بالکل بھی اتفاق نہیں تھا، سب اپنی مرضی کے مالک تھے۔
جس بیٹے کو لکڑیوں کا بندوبست کرنے کا کہا، اس نے جھٹ سے جواب دیا: "میں لکڑہارا نہیں کہ لکڑیاں اکٹھی کرتا پھروں"۔ جسے پانی لانے کا کہا، اس نے کہا: "میں ماشکی نہیں جو پانی بھروں" اور شکار کرنے والے نے منہ بنایا اور کہا: "مجھ سے نہیں ہوتا شکار و کار"۔
سب آپس میں جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے کو کام کرنے کا کہتے رہے۔ کام کرنے کی بجائے وہ وقت برباد کرتے رہے اور کسی نے بھی فاختہ کے سامنے یکجہتی اور اتفاق کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چونکہ وہ متحد ہو کر ایک معمولی سا کام بھی نہیں کر سکے، اس لیے فاختہ ان کے قریب بھی نہ آئی اور نہ ہی انہیں خزانے کا راز بتایا۔
خزانہ تو ان کی آنکھوں کے سامنے ہی دفن تھا، مگر اتفاق اور محنت کی کمی کی وجہ سے وہ اسے حاصل نہ کر سکے اور خالی ہاتھ، مایوس ہو کر شہر کو لوٹ آئے۔
سبق:
اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ: اتفاق میں برکت ہے اور نااتفاقی ہمیشہ نقصان اور ناکامی کا باعث بنتی ہے۔
نیا نتیجہ یا سبق: میرے نزدیک اس عمر میں اس کہانی کا ایک اور پہلو نکلتا ہے وہ یوں کہ جب آپ کو برے حالات گھیر لیں۔۔ مالی مشکلات آپ کے گھر کا راستہ دیکھ لیں۔ تو اس کا لازمی نتیجہ اسٹریس اور ڈپریشن کی صورت میں گھر کے ہر فرد پر حملہ آور ہوتا ہے۔ دونوں خاندانوں کا اسی اسٹریس اور ڈپریشن جو محدود وسائل اور انتہائی مسائل کی وجہ سے مکمل خاندان میں پیدا ہوا نبٹنے کا انداز ہی انہیں اس anxiety اور ڈپریشن سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوا۔۔ یعنی ایک خاندان نے اپنے وسائل محدود کرکے ساتھ رہنے کا سوچا اور اس کڑے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ غنیمت جانا اور شہر سے نکل پڑے۔۔ جب جنگل مین پہنچے تو انہیں معلوم تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ آئے ہیں اب ایک دوسرے کی مدد اور ساتھ اہم ہے۔۔ اسے (Proactive) فعال رویہ کہتے ہیں۔۔ اس رویہ نے ان کے لئے راستے ہموار کر دئے۔۔ جبکہ دوسرا خاندان جو انہی کی طرح حالات سے گزر رہا تھا۔
انہوں نے اپنے پڑوسیوں کی دیکھا دیکھی کام کیا جس کی بنیاد مین اضطراب، کچھ جلد پانے کی لگن اور لالچ کا جذبہ کار فرما تھا۔ جس نے ان کے ناچاہتے رویے کو مزید کشیدگی کی طرف دھکیل دیا جس کا نتیجہ آپس کی چپقلش اور بدمزگی بن گئی۔۔ لہٰذا وہ اپنے ہی دائرے میں خود اپنی نفرت کا شکار ہو گئے اسے (Reactive) منفی ردعمل رویہ کہتے ہیں۔۔ جس میں انسان اپنی کوتاہیوں، غلطیوں کا زمہدار ہمیشہ دوسروں کو ٹھہرایا کرتا ہے۔۔ اس زمین پر آپ چاہے کوئی کام کر رہے ہوں۔۔ اگر اس کام میں آپ کی لگن اور کمٹمنٹ نہیں بنتی تو آپ اپنے ری ایکٹیو رویہ کے سرکل میں گول گول چکر کاٹتے رہیں گے اور باہر نکلنے کی بجائے اس دائرے کے مرکز کی طرف سفر کریں گے جہاں فنا مقدر ہے۔۔
یاد رکھیں نا مناسب حالات، آپ کو کچھ دینے آتے ہیں آپ سے کچھ لینے نہیں کیونکہ کوئی بھی کیمیاء گر تب تک سونا نہیں بنا سکا جب تک وہ خود حالات کی بھٹی میں کندن نہیں ہوا۔۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ خزانہ تو انہیں محنتوں سے نہیں ملا بلکہ فاختہ سبب بنی تو ان کے ایک دوسرے سے محبت، ایک دوسرے سے نرمی نے فاختہ کو یہ پوچھنے کی ہمت دی کہ وہ اسے شکار نہ کریں جبکہ دوسرے خاندان کا تلخ رویہ فاختہ کو ڈرا گیا کہ کہیں اسے آسان شکار سمجھ کر ہی نہ دبوچ لیا جائے۔۔ بہرکیف یہاں فاختہ ایک استعارہ ہے قدرت کی تائید کا۔ پہلے خاندان کی اصل کامیابی خزانہ نہیں، بلکہ Crisis (بُرے حالات) سے نکلنے کا متفقہ اور مثبت (Proactive) فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ ہی ان کی ذہنی اور جذباتی مضبوطی (Emotional Resilience) کا انعام تھا۔

