Imdad Karen, Lekin Kaise
امداد کریں، لیکن کیسے
اسلام کے نزدیک ساری مخلوق اللہ کا ایک کنبہ ہے اور سب کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے حدیث پاک ہے کہ:اَلْخَلْقُ کُلُّھُمْ عِیَالُ اللہِ فَأحَبُّ الْخَلْقِ عِنْدَ اللہِ مَنْ اَحْسَنَ الٰی عِیَالِہ"۔
ترجمہ: ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے پیاری وہ مخلوق ہے، جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔
اپنے اس کنبہ پر رب کریم نے جب کمال شفقت و رحمت کا ارادہ کیا تو اپنے محبوب کریم ﷺ کو اپنی مخلوق کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:"وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَةً للعالمین"، ہم نے آپ کو تمام عالم کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔
ایک حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے:"اَنَا نَبِيُّ الرَّحْمَةِ، أنَا رَسُوْلُ الرَّحْمَةِ"، میں نبیِ رحمت اور رسولِ رحمت ہوں۔
ایک اور حدیث میں فرمایا گیا:"اَنا رَحْمَةٌ مُھْدَاةٌ"، میری ذات سراپا رحمت ہے جو خلقِ خدا کو منجانب اللہ بطورِ عطیہ مرحمت کی گئی ہے۔
اسی رحمت کا تقاضہ ہے کہ اللہ کریم نے قرآن میں مومنوں کی شان یوں بیان کی کہ
ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھیے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں (سورہ الفتح)
صحابی ٔ رسولؐ، ترجمان القرآن حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں : "خون کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، احسانات فراموش کر دیئے جاتے ہیں لیکن ایمان سے زیادہ دلوں کو قریب کرنے والی چیز دیکھنے میں نہیں آئی"۔ (ابن کثیر2/426)
ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ ترکیہ اور شام کے زلزلے میں اللہ کریم کی کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ کیا یہ جلال خداوندی ہے، اس قوم کی اعمال کی سزا ہے یا بحیثیت مسلمان ہم سب کی آزمائش ہے۔ یا یہ ان سب ہمارے دینی بھائیوں کا وقت وصال تھا یا پوری امت کو تنبیہ۔ لیکن یہ جو بھی ہوا اس میں اللہ کریم کی کوئی بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ بعض اوقات علم تکوین کے تحت ایک سانحہ کر کے پوری قوم یا امت کو متحد کیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات اسی سانحہ سے خاندانوں، قبائل اور قوم کو منتشر کیا جاتا ہے۔ اس وقت میں کچھ لوگ نیکی کما لیتے ہیں اور کچھ کی سات نسلیں عذاب کی مستحق ہو جاتی ہیں۔
کسی بزرگ نے کہیں وعظ کیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ مشیت خداوندی کے تحت ہو رہا ہے۔ جب انہوں نے تقریر ختم کی اور واپس جانے لگے تو ایک بدبخت نے ان کی گردن میں زبردست طمانچہ رسید کیا۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تو وہ بدبخت کہنے لگا۔ حضرت صاحب مجھے کچھ نہ کہیں یہ طمانچہ مشیت خداوندی کے تحت آپ کو پڑا۔ ان بزرگ نے اطمینان سے جواب دیا۔ بیٹا بالکل! یہ طمانچہ مجھے مشیت خداوندی کے تحت یا میری شامت اعمال کی وجہ سے پڑا یا آزمائش کے تحت۔ میں تو صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ وہ کون سا بدبخت ہے جس کا ہاتھ استعمال ہوا۔ کیونکہ کسی مومن کو اللہ ایسی بدبختی کی طاقت نہیں دیتا۔
اسی طرح اس زلزلے کے بعد کئی لوگ اس سے کمائیاں کر کے، لوگوں کو لوٹ کر، بے آبرو کر کے، اشیاء کی قلت کر کے، بد بخت ٹھہریں گے اور کچھ اپنے دئے ہوئے رزق، جسمانی خدمت اور دعا و خیرات سے اپنی آنے والی نسلوں کا بھلا کر جائیں گے۔ پوری دنیا ان زلزلے زدگان کے لئے مدد کی درخواست کر رہی ہے۔ اور تمام ممالک حسب توفیق امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مخیر حضرات و اقوام نے خزانوں کے منہ کھول دئے ہیں۔
لیکن میں اس آرٹیکل کے توسط سے اپنے مسلمان بھائیوں سے ایک اور خاص امداد کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔
بالکل ایسی امداد جیسے کسی کنبہ میں بہت سے بچوں میں ماں کسی ایک بچے سے ناراض ہو کر اس کی پٹائی کر دے اور ایک وقت کا کھانا بند کر دے اور اسے اسٹور میں بند کر دے۔ اس حالت میں باقی بہن بھائی ڈر کر سہم جاتے ہیں اور شرارت چونکہ سب نے مل کر کی ہوتی ہے اور پکڑ کسی ایک کی ہو جاتی ہے تو سب کچھ ڈرے سہمے سہمے اماں کو منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ اپنے بھائی کو چھپ چھپ کر کچھ کھانے کو دیتے ہیں۔
جب ماں اولاد کی بھلائی کے لئے سختی کر لیتی ہے تو پھر جب سب بہن بھائی مل کر ماں کو مناتے ہیں تو وہ مان جاتی ہے۔ اسے واپس کھول دیتی ہے۔ روٹی دیتی ہے۔ پھر سب بہن بھائی اس بھائی یا بہن کے زخم یا مار کے نشان کی خدمت کرتے ہیں اور ماں یہ دیکھ کر پھر اس بچے کو پیار کرتی ہے اس کے زخموں کا مداوا کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہمیں جو سب سے زیادہ امداد اپنے زلزلے سے متاثر بھائیوں، بہنوں، بچوں کی کرنی ہے وہ ہے۔ ہر نماز میں ان کے لئے دعا، ان کے ایصال ثواب کے لئے تلاوت و درود پاک بھلے تین مرتبہ سورہ اخلاص اور تین مرتبہ درود پاک ہی کیوں نہ پڑھ کر ان کے لئے ایصال ثواب کیا جائے۔
اور یہاں اپنے ملک میں کسی غریب کو کھانا کھلا کر اس کا اجر ثواب وہاں فوت ہو جانے والوں، زخمیوں کی جلد صحتیابی، بھوکوں کے لئے خوراک کی امداد کے وسائل بنانے اور تن ڈھانپنے کی امداد کے لئے اللہ کریم کو نبی کریم ﷺ کے توسط سے گزارش کی جائے۔ کیونکہ اللہ کریم مسبب الاسباب ہیں۔ تمام وسائل بروقت لوگوں تک پہنچانا اور بغیر کسی سبب کے بھی متاثرین کی مدد کے وسائل بنانے پر قادر ہیں۔ انسان تو کئی جگہ کوتاہی بھی کرینگے، غبن بھی کریں گے، سستی بھی کریں گے۔ لیکن اگر ہم نے اللہ کریم کو اپنے بھائیوں، بہنوں کے لئے راضی کر لیا تو ان کی مدد بھی ہوگی اور مغفرت بھی لیکن اس سے قبل اللہ کریم ہماری قوم کو معاف فرمائیں گے۔
یاد رکھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کر دے، تو اللہ اس کی قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور فرمائے گا، اور جس نے کسی نادار و تنگ دست کے ساتھ آسانی و نرمی کا رویہ اپنایا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا و آخرت میں آسانی کا رویہ اپنائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے، جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے"۔ (سنن ابی داؤد)
یا اللہ کریم آپ نبی کریم ﷺ کے وسیلے ہماری تلاوت، دعاؤں، صدقات اور درود پاک و نوافل کو ترکیہ اور شام میں زلزلہ سے ہلاک ہونے والوں کی مغفرت، بلند درجات کے لئے قبول فرما۔ اور نبی کریم ﷺ کے واسطے زخمیوں، پناہ گزینوں، لاوارث رہ جانے والوں کی ایسی امداد فرما جس طرح ہجرت مدینہ کرنے والوں کو سنبھالا۔
مالک کریم، وہ بچے جو لاوارث و یتیم رہ گئے، وہ بچیاں جن کی عزت کا تحفظ کرنے والے سائے اب ان کے سر پر نہیں رہے ان سب یتیموں، لاوارثوں اور بتول بچیوں کو نبی کریم ﷺ کے سپرد کرتے ہیں، تجھے تیرے کرم اور فضل کا واسطہ ہمیں اپنے غصے اور غضب سے بچانا اور ہم سب کو آزمائش میں ڈالنے سے پہلے ہمیں معاف بھی فرما اور رحم بھی فرما۔ بےشک تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔